پاکستان میں یوں تو ہر شعبہ ہی زبوں حالی کا شکار ہے لیکن جتنا حالیہ سالوں میں پولیس اور محمکہ انصاف نے مایوس کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
پولیس شہریوں کی بروقت مدد نہیں کرتی اور مقدمات میں مدتوں انصاف نہیں ملتا۔ مجھے ایک مسیحی جوڑا نہیں بھولتا، کچھ دن کے وقفے سے ان کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
جب بھی کوئی ہجوم کے ہاتھوں مارا جاتا ہے مجھے وہ دونوں یاد آتے ہیں۔
شمع اور شہزاد میسح پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگا اور اس مسیحی جوڑے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد ان کو آگ سے دہکتی بھٹی میں پھینک دیا گیا جہاں سے باقیات کے نام پر ان کے صرف دانت ملے۔
یہ سانحہ 2014 میں کوٹ رادھا کشن، قصور میں ہوا تھا اور پولیس کے آنے سے پہلے ان دونوں کو قتل کردیا گیا تھا۔
شمع حاملہ تھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک اینٹوں کے بھٹے پر غلاموں کی طرح کام کرتی تھی۔
وہ دونوں یہ کہتے رہے کہ ہم نے کوئی توہین نہیں کی، ہم ان پڑھ ہیں لیکن مشتعل ہجوم نے ان کو اینٹوں کی بھٹی میں پھینک کر زندہ جلا دیا، جہاں سے ان کے جسد خاکی بھی نہیں مل سکے۔
اس سانحے کے بعد مسیحی آبادی کی بڑی تعداد وہ گاؤں چھوڑ کر چلی گئی۔ شمع اور شہزاد کے تین بچے نجانے آج کن حالات میں زندگی گزار رہے ہوں گے، کچھ معلوم نہیں۔
ہجوم کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ خود ہی کسی پر الزام لگائے، خود ہی سزا سنائے اور خود ہی اس پر عمل کر ڈالے۔
اس واقعے کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر ہمارا عدالتی نظام اتنا سست روی کا شکار ہے کہ ملزمان، مجرمان قانونی داؤ پیچ کھیل کر آسانی سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔
جیسے حال ہی میں ایک امیر قاتلہ دو لوگوں کو گاڑی سے کچل کر مارنے کے باوجود جیل سے نکل آئی۔ غریب کے لیے پیمانہ انصاف کچھ اور ہے اور امیر کے لیے میزان عدل مختلف ہے۔
اسی طرح سانحہ یوحنا آباد 2015 میں چرچ پر دو دھماکے کیے گئے، میسحی برادری جہاں رنجیدہ ہوئی، وہیں غصے میں آکر لوگوں نے دو مسلمان راہ گیروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی لاشیں جلا دی۔
مجھے یہ لکھتے ہوئی کپکپی طاری ہو رہی ہے، ہاتھ لرز رہے ہیں اور پاکستانی مذہب کی آڑ لے کر ایک دوسرے کو جلا رہے ہیں۔ زندہ جلایا گیا اور بعد میں ان کی سوختہ لاشوں کو چوک میں لٹکا دیا گیا تھا۔
میسحی بہن بھائی اس ملک کا پسا ہوا طقبہ ہیں، وہ بہت پرامن ہیں لیکن ان کی طرف سے ایسا ردعمل پہلی بار دیکھا گیا۔
2020 میں سانحہ یوحنا آباد میں ملوث تمام مجرمان کو بری کردیا گیا تھا کیوں کہ جن دو لوگوں کو زندہ جلایا گیا تھا ان کے لواحقین نے مجرمان کو معاف کردیا تھا۔
بابر نعیم اور حافظ نعمان کو شاید اللہ کے ہاں انصاف مل جائے لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
نظام عدل کی سست روی کے وجہ سے ہجوم انصاف کو نگل رہا ہے۔ رہی سہی کسر فرقہ واریت، مذہبی اتنہا پسندی اور نفرتوں نے پوری کردی۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے اصلی جمہوریت موجود نہیں عوام مہنگائی غربت کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں، اس لیے جب کوئی ان کے سامنے مذہب کارڈ کھیلتا ہے تو وہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنی محرومیوں کا بدلہ کسی بے گناہ سے لیتے ہیں۔
عوام کی بڑی تعداد یہ جانتی ہے کہ اگر وہ بااثر ہیں تو وہ جیل سے جلد نکل جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس لیے دوبارہ ایک سانحے نے سیالکوٹ میں جنم لیا۔ جب ایک سری لنکن شہری پر توہین مذہب کا الزام لگا اور اس کو بھی جلا دیا گیا۔
یہ ایک بہت خوف ناک عمل ہے کسی انسان کو زندہ یا مردہ حالت میں جلا دیا جائے۔ تمام ارباب اختیار اس پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ کو آپس کی لڑائیوں سے فرصت نہیں۔ معاشرہ انتہا پسندی کی بھی انتہا پر پہنچ گیا ہے۔
2021 میں سری لنکن شہری پریانتھا دیاودھنا سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کر رہے تھے کہ اچانک کئی سو لوگوں نے ان کا گھیراؤ کر کے ان پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔
ہجوم نے ان کو چوک میں مارنے کے بعد وہیں ان کی لاش کو آگ لگا دی۔ پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہوئی کہ ہم ایک انسان جلانے والی قوم ہیں۔ پر اس سال بھی یہ سلسلہ رک نہیں سکا۔
مدین، سوات میں توہین مذہب کے الزام میں ایک سیاح کو پولیس سٹیشن سے نکال کر قتل کرنے کے بعد جلا دیا گیا۔ پولیس سٹیشن اور پولیس کی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔
اس واقعے سے سیاح بہت خوف زدہ ہوئے اور واپس اپنے علاقوں کو لوٹ آئے۔ پولیس بھی ایسے موقعے پر پسپائی اختیار کرکے اپنی جان بچانے میں لگ جاتی ہے اور مبینہ ملزم کو ہجوم کے حوالے کر دیتی ہے۔
اب عمر کوٹ سندھ میں ڈاکٹر شاہنواز کو توہین مذہب کے الزام کے بعد قتل کیا گیا اور ان کی لاش جلا دی گئی۔
یہ جملہ بار بار لکھتے ہوئے میں ہاتھ لرز رہے ہیں لیکن لوگ ہجوم کی صورت ایک نہتے انسان کو جلانے سے باز نہیں آ رہے۔ تاہم اس بار سندھ کے عوام نے اس واقعے کے بعد الگ پیغام دیا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد متقول ڈاکٹر کی قبر پر جمع ہوئی ان کے لیے دعا کی، ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھی گئی، ساتھ اس ہندو شہری کو بھی خراج تحسین پیش کیا جس نے ڈاکٹر شاہنواز کے جسد خاکی کو ہجوم سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔
سندھ کے عوام ڈاکٹر شاہ نواز کی قبر پر دعا بھی کر رہے ہیں اور صوفیانہ کلام بھی پڑھ رہے ہیں۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے ورنہ توہین مذہب کے الزام کے بعد لواحقین کو لوگوں کے ڈر خوف سے چھپ کر رہنا پڑتا ہے۔
وہ نقل مکانی کر جاتے ہیں اور قبر بھی نامعلوم جگہ پر ہوتی ہے تاکہ دنیا سے جانے والے کی قبر کی بےحرمتی نہ ہو۔
پاکستان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ذاتی لڑائیوں کے نتیجے میں ایک فریق دوسرے پر توہین مذہب کا الزام لگاتا ہے اور عوام بغیر تحقیق کیے کسی بھی بے قصور کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔
اگر کوئی شخص اصل میں اس جرم کا ارتکاب کرے تو شریعت اور پاکستان کے آئین میں اس کے لیے سزا مقرر ہے۔
تاہم ہجوم کو کسی نے یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی بھی شخص پر الزام لگا کر اس کی جان لے۔
یہ سلسلہ کب اور کیسے رکے گا فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، لیکن ڈر ہر کسی کے دماغ پر مسلط ہے کہ کون کب کس کو توہین مذہب کے الزام میں مار دے، سارا شہر ہی پارسا بنا پھرتا ہے۔
نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔