امریکہ میں انڈین خفیہ ادارے کے ایک سابق افسر پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے گذشتہ سال نیویارک سٹی میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل کے منصوبے کی ہدایت جاری کی، جو ناکام ہو گیا۔
اس اقدام سے انڈین حکومت کو امریکی سرزمین پر تشدد کے ایک مبینہ واقعے کا جوابدہ ٹھہرانے کی امریکی کوششوں میں تیزی آئے گی۔
وکاش یادو جو انڈیا کی بیرون ملک انٹیلی جنس سروس کے سابق افسر ہیں اور انہیں وفاقی پراسیکیوٹرز کی جانب سے جمعرات کو اضافی فرد جرم میں پہلی بار نامزد کیا گیا۔ ان پر منی لانڈرنگ، سازش اور قتل کے لیے کرائے کے قاتلوں کے منصوبے کی قیادت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مبینہ ساتھی نکھل گپتا پر پہلے ہی فردِ جرم عائد کی جا چکی ہے اور انہیں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ وہ بروکلین کی جیل میں قید ہیں اور انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ وکاش یادو جنہیں قانون نافذ کرنے والے حکام نے اس منصوبے کا ’ماسٹر مائنڈ‘ قرار دیا، ابھی تک مفرور ہیں۔
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’انصاف کا محکمہ کسی بھی شخص کو، چاہے اس کا عہدہ کچھ بھی ہو یا وہ طاقت کے کتنے ہی قریب ہو، امریکی شہریوں کو نقصان پہنچانے اور خاموش کروانے کی کوشش کرنے پر بھرپور انداز میں جوابدہ ٹھہرائے گا۔‘
وکاش یادو اور نکھل گپتا پر الزام ہے کہ انہوں نے گرپت ونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کی، جو امریکہ اور کینیڈا کے شہری ہیں اور ’سکھس فار جسٹس‘ نامی تنظیم کے بانی ہیں۔ یہ تنظیم آزاد سکھ ریاست ’خالصتان‘ کے قیام کے لیے مہم چلا رہی ہے۔ انڈیا میں اس تنظیم پر پابندی ہے، جس سے تعلق رکھنے والے سکھوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا گیا ہے۔
فرد جرم کے مطابق مئی 2023 میں وکاش یادو نے قتل کی منصوبہ بندی کے لیے مبینہ طور پر نکھل گپتا کو بھرتی کیا اور وکاش یادو کی ہدایت پر نکھل گپتا نے ایک ساتھی سے رابطہ کیا جو دراصل ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے ) کا خفیہ ذریعہ (سورس) نکلا۔
نکھل گپتا کی ملاقات ایک مبینہ ’قاتل‘ سے کروائی گئی، جو حقیقت میں ایک پولیس افسر تھا، جو خفیہ رہ کر کام کر رہا تھا۔
پراسکیوٹرز کے مطابق وکاش یادو نے نکھل گپتا کو گرپت سنگھ پنوں کا پتہ، فون نمبر اور دیگر ذاتی معلومات فراہم کیں اور نکھل گپتا نے ’قاتل‘ پر زور دیا کہ وہ قتل کو جلد از جلد انجام دے لیکن یہ کام امریکہ اور انڈین حکام کے درمیان اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے موقعے پر نہ کیا جائے۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے امریکہ کے سرکاری دورے سے کچھ دن قبل نقاب پوش مسلح افراد نے برٹش کولمبیا، کینیڈا میں ایک سکھ مندر کے باہر ہردیپ سنگھ نجار کو قتل کر دیا۔ اگلے دن نکھل گپتا نے مبینہ طور پر ہٹ مین کو بتایا کہ ’نجر بھی ہدف تھا‘ اور ’ہمارے پاس بہت سے ہدف ہیں۔‘
فرد جرم کے مطابق انہوں نے کہا کہ گرپت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کے لیے ’انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔‘ انہوں نے 20 جون کو لکھا کہ ’یہ اب ترجیح ہے۔‘
محکمہ انصاف کی نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل میتھیو جی اولسن کے بیان کے مطابق تازہ ترین فرد جرم ’امریکہ میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنانے والی جان لیوا سازشوں اور سرحد پار پُر تشدد جبر میں اضافے کی سنگین مثال ہے۔‘
یہ فرد جرم ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی، جب محکمہ انصاف نے قتل کی ناکام کوشش پر انڈیا کے ساتھ سب سے زیادہ براہ راست کھلی محاذ آرائی کی جبکہ اس سے قبل کینیڈا، انڈیا کے ساتھ تعلق رکھنے والے مخالفین کے خلاف انڈیا کی وسیع تر پرتشدد مہم کے الزامات لگا چکا ہے، جن میں علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں انڈین حکام کے ملوث ہونے کا الزام بھی شامل ہے۔
اگرچہ گرپت سنگھ پنوں کے خطرے میں ہونے اور کینیڈا میں ہونے والے قتل کے درمیان کوئی براہِ راست تعلق واضح طور پر سامنے نہیں آیا لیکن دونوں کیسوں میں مماثلت نے حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ انڈیا نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے وسیع تر عالمی مہم شروع کر دی ہے۔
انسداد منشیات کے امریکی ادارے (ڈی ای اے) کی ایڈمنسٹریٹر این ملگرام کے مطابق: ’وکاش یادو نے عہدے اور خفیہ معلومات تک رسائی کا استعمال کرتے ہوئے انڈین حکومت پر کھل کر تنقید کرنے والے شخص کے یہاں امریکی سرزمین پر قتل کی ہدایت دی۔‘
© The Independent