مولانا فضل الرحمن مارچ پر تیار: اپوزیشن ہچکچاہٹ کا شکار

مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں شریک نہیں تھے نہ ہی ن لیگ کی قیادت آزادی مارچ کی تاریخ کے اعلان پر ان کے ہمراہ نظر آئی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایم ایم اے انتخابی دھاندلی کے خلاف 15 مارچ پہلے ہی کر چکی ہے جس سے عوام میں بیداری پیدا ہوئی (اے ایف پی)

جمعیت علما اسلام (ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔

انھوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اپنی جماعت کے مجلس عاملہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں کہ موجودہ حکومت ’جعلی حکومت‘ ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے 25 جولائی کے انتخابات کو مسترد کر دیا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایم ایم اے انتخابی دھاندلی کے خلاف 15 مارچ پہلے ہی کر چکی ہے جس سے عوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ’ناجائز حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ملکی معیشت ڈوب گئی اور عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔‘

’اس لیے 27 اکتوبر کو کشمیری عوام یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور ان سے مکمل اظہار یکجہتی کی جائے گی27 اکتوبر سے ہی پورے ملک سے آزادی مارچ کا آغاز کر رہے ہیں اور حکومت کو چلتا کریں گے۔‘

مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈی چوک اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ ’ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی تو پہلے پھر دوسرے یا تیسرے منصوبہ پر عمل کریں گے۔ حکومت کے ساتھ کسی معاملے پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ہمارے اصولی موقف کو جو بھی اپنائے گا اس کو خوش آمدید کہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اداروں سے کوئی تصادم نہیں کریں گے، ہم فوج کا احترام کرتے ہیں۔ ہم کمانڈ آف یونٹی کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، کشمیر کا سودا نامنظور ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دیگر اپوزیشن جماعتوں کا موقف

پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا ہے کہ حکومت نے معاشی تباہی کے ساتھ عالمی سطح پر ملک کو تنہا کر دیا۔ ان کے بقول مہنگائی، بے روزگاری نے عوام کا جینا مشکل کر رکھا ہے، ایسی صورتحال میں مستقل دھرنا دینے سے ملک اندرونی طور پر مزید بدحال ہوسکتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کا واضح موقف ہے کہ مذہبی کارڈ کا سیاسی استعمال قبول نہیں، ہم حکومت تبدیل کرنے اور عوامی مسائل حل کرانے، مضبوط جمہوری نظام ضرور چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے موثر جدوجہد اور سڑکوں پر نکلنے سے پہلے متفقہ نکات پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے آخری وقت تک متحد رہنے کی ضمانت چاہتے ہیں، کیونکہ ماضی میں بعض جماعتیں مقاصد حاصل کر کے موقف تبدیل کر چکی ہیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی حکومت مخالف دھرنے میں شریک نہیں ہوگی؟ شہلا رضا نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا کہ ’ہم اصولی موقف رکھتے ہیں کہ جمہوری اصولوں کے اندر رہتے ہوئے حکومت مخالف تحریک چلائی جائے لیکن سب کا مقصد پارلیمان، جمہوریت، عوامی مسائل کا حل، انتخابی اصلاحات ہونا چاہیے نہ کہ اقتدار کا حصول کیونکہ اقتدار تو آتا جاتا رہتا ہے لیکن بنیادی تبدیلیاں آج بھی چیلنج ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں بھی اپنے اصولی موقف سے آگاہ کر دیا کہ اپوزیشن جماعتوں کا بنیادی جمہوری نکات پر متفق ہونا ضروری ہے۔ تاکہ منظم اور موثر انداز میں ایسی تحریک چلائی جائے جو حکومت ہٹانے کے لیے ضرور ہو لیکن ملکی مفادات کے خلاف نہ ہو۔

شہلا رضا نے کہا کہ دھاندلی زدہ حکومت مخالف تحریک سے زیادہ ضروری دھاندلی کا راستہ روکنے کے لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے اپوزیشن کے آزادی مارچ میں شرکت کا عندیہ تو دے دیا گیا ہے لیکن بعض رہنماوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اختلاف رکھنے والے رہنماوں میں خواجہ آصف، احسن اقبال اور رانا تنویر شامل ہیں۔ وہ ٹاک شوز میں مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مذہبی کارڈ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مخالفت کرچکے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف نے جمعرات کے روز کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں آزادی مارچ سے متعلق تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے ن لیگ کی آزادی مارچ میں شرکت کو یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے شہباز شریف کو آزادی مارچ میں قیادت کی ہدایت کی تو انہوں نے خرابی طبیعت کے باعث معذرت کر لی جس پر قیادت کی ذمہ داری احسن اقبال کو سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اس اطلاع کی تردید پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے پارٹی حکمت عملی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ ہم کچھ متفقہ نکات پر پہنچ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اور اس ملک کی سلامتی اور بقا چاہیے تو حکومت کو جانا ہوگا۔

’ملک کا ہر طبقہ موجودہ حکومت سے نالاں ہے ہمارا بھرپور اتفاق ہے کہ اس حکومت کو چلتا کیا جائے۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ قبول نہیں ہم نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں، جس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔‘

صحافی نوید چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگی قیادت کے سیاسی اختلافات اور مختلف نظریہ ہے۔ ن لیگ حکومت ہٹانے کے ساتھ اپنا سیاسی کردار چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی علیحدہ موقف رکھتی ہے اور وہ بھی مذہبی کارڈ کے خلاف اور جمہودی بالادستی کے نظریہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دھرنے کو ملکی مفاد میں نہیں سمجھتی۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں مشروط شمولیت کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن اس مارچ کے شروع ہونے پر دونوں جماعتوں کی حکمت عملی کھل کر سامنے آجائے گی۔

ان کے خیال میں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے حکومت مخالف تحریک میں مرکزی قیادت کا معاملہ بھی سنجیدہ مسئلہ ہے کیا یہ بڑی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے موثر کردار ادا کریں گی؟

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں شریک نہیں تھے نہ ہی ن لیگ کی قیادت آزادی مارچ کی تاریخ کے اعلان پر ان کے ہمراہ نظر آئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست