فنانشل ایکشن ٹاسک فورس: کیا پاکستان گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے؟

بلند و بانگ اعلانات اور دعووں کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے صرف نیم دلانہ کوششیں کی گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ ریاست کے کلیدی اداروں، خاص طور پر فوج اور حکومت کے مابین اختلافات رہے ہیں۔

یہ کہنا کہ پاکستان پہلے بھی تین سال تک گرے لسٹ میں ہونے کے اثرات سے نمٹنے میں کامیاب رہا تھا یا دعویٰ کرنا فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا کہ ملک کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ محض سیاسی ہے(اے ایف پی)

ستمبر 2019 کے آخری دن پاکستان کی قومی اسمبلی نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں مزید ترامیم کی منظوری دی اور نتیجتاً پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ متفقہ منصوبہِ عمل پر عمل درآمد کی جانب ایک اور مثبت قدم اٹھایا۔ ان ترامیم سے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت کو غیر قانونی طریقے سے جائز سرمائے میں بدلنے کے عمل کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا گیا ہے اور اس جرم کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی مطابق زرمبادلہ کے ضوابط میں بھی ترامیم کی منظوری دی گئی۔

جون 2018 میں پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں دوبارہ شامل کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2018 میں، پاکستان اور ایشیائی - اوقیانوسی گروپ نے 27 قابل عمل نکات پر پیش رفت کا جائزہ لیا۔ پاکستان کو ستمبر 2019 تک ان تمام نکات پر کام مکمل کرنے کا پابند کیا گیا۔ امسال اگست میں کینبرا میں منعقد ایشیائی - اوقیانوسی گروپ اور پاکستان کے اجلاس میں متعدد ایسے شعبوں کی نشاندہی کی گئی جہاں مزید کارروائی کی ضرورت ہے۔

اب یہ گروپ اس ماہ کی 13 سے 18 تاریخ کو پیرس میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کو اپنی سفارشات سے آگاہ کرے گا۔ ان سفارشات کی بنیاد پر ایف اے ٹی ایف فیصلہ کرے گی کہ آیا پاکستان کو نام نہاد گرے لسٹ (عملِ جاریہ) سے خارج کرنا ہے، اسے وہاں رکھنا ہے یا اسے بلیک لسٹ (عام بیان) میں شامل کر کے دوسرے ممالک کو پاکستان کے خلاف اقتصادی و معاشی اقدامات اٹھانے کی سفارش کرتی ہے۔

جون 2018 میں گرے لسٹ میں پاکستان کی شمولیت کے بعد کی گئی کاوشوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں:

ایک سرسری مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلند و بانگ اعلانات اور دعووں کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے صرف نیم دلانہ کوششیں کی گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ ریاست کے کلیدی اداروں، خاص طور پر فوج اور حکومت کے مابین اختلافات رہے ہیں۔ ان داخلی مسائل سے عوام کی توجہ بٹانے کے لیے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں روایتی اونچ نیچ اور بھارتی عداوت جیسے بیرونی عوامل کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پاکستانی عوام کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ایف اے ٹی ایف میں ملک سے امتیازی سلوک معاشی عوامل سے ذیادہ سیاسی عوامل کا مرہونِ منت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل رہنے کی وجہ سے دور رس اور گمبھیر نقصانات ہوں گے۔ ان کا اثر بیرونی تجارت، ترسیلات زر، بین الاقوامی قرضہ جات، غیر ملکی سرمایہ کاری، بینکاری، سٹاک مارکیٹ غرض کہ معیشت کے ہر شعبہ پر پڑے گا۔ سب سے بڑا خطرہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا جانا ہو سکتا ہے، جو اس وقت صرف شمالی کوریا اور ایران پر مشتمل ہے۔

ان منفی اثرات سے بچنے کے لیے ایک نہایت سوچی سمجھی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ گرے لسٹ سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش سیاسی قیادت کی، جو دوسرے اداروں کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہونے کا راگ الاپتی رہتی ہے، اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ سول اور فوجی قیادت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان بدلتے حالات میں اگر ملک نے ترقی کرنی ہے اور بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے تو پرانے معمولات کے مطابق کاروبارِ مملکت بےسود ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گرے لسٹ کے منفی اثرات کی اہمیت کم کرکے بیان کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔ یہ کہنا کہ پاکستان پہلے بھی تین سال تک گرے لسٹ میں ہونے کے اثرات سے نمٹنے میں کامیاب رہا تھا یا دعویٰ کرنا فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا کہ ملک کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ محض سیاسی ہے۔ اس بات پر نوحہ کناں ہونا بھی قطعاً بےمعنی ہے کہ چین اور سعودی عرب جیسے قریبی دوستوں نے بھی اس معاملے میں پاکستان کو بیچ منجدھار چھوڑ دیا، بلکہ اگر مثبت انداز سے سوچا جائے تو دونوں ممالک نے یہ احساس دلا کر کہ پاکستان پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ دوستی محض نیک خواہشات پر نہیں چل سکتی۔

یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر دہشت گرد تنظیموں کا خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں کوئی عمل دخل ہو گا تو یقیناً منفی ہی ہو گا۔ اگر وہ گروہ اور افراد جو دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث رہے ہوں اور جنہیں اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہو بلاخوف و خطر گھومنے پھرنے، منظم ہونے اور ملکی انتخابات میں شامل ہونے کے لیے آزاد رہیں تو ایف اے ٹی ایف کے مطلوبہ قوانین کی منظوری کا کوئی مقصد نہیں۔

درج بالا سے قطع نظر، حال ہی میں اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ پالیسی ساز حلقوں میں کچھ سنجیدہ اور گہری سوچ بچار کی گئی ہے جس کی وجہ سے مختلف اداروں میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہوتا نظر آتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی زیادہ تر شرائط پاکستان کے حق میں ہیں اور ان پر عمل کرنے میں ہی ملک کا فائدہ ہے۔ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی گرفتاری اور جماعت کے اثاثے ضبط ہونا اس کا ثبوت ہے۔ اب حکومت کو خلوصِ نیت اور یکسوئی سے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ کیے گئے دیگر سمجھوتوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کے چند حالیہ بیانات ایک مثبت پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گذشتہ ماہ نیویارک میں ایک تحقیقاتی ادارے سے اپنے خطاب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے کچھ جہادی گروہوں کی تربیت کی۔ قبل ازیں انہوں نے سرحد پار کشمیر میں (لڑائی کے لیے) جانے کے خواہشمند افراد کے بارے میں کہا کہ ایسے افراد کشمیر اور پاکستان دونوں کے بڑے دشمن ہیں۔ پس منظر میں کشمیر میں 5 اگست کے بھارتی اقدامات کا اثر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ معاملے کی انتہائی نزاکت کی وجہ سے گذشتہ حکومتوں نے ان موضوعات پر زبان بندی میں ہی عافیت سمجھی۔

لیکن اس بار حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ کسی بھی ادارے، سیاسی جماعت یا نام نہاد عسکریت پسند گروپ نے وزیر اعظم کے بیانات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا (یہاں ایک لمحہ توقف کر کے ڈان لیکس کے واقع کو یاد کر لیجئیے!)۔ یہ امر پاکستان کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں ایک خوش آئند تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس کا مقصد دہشت گردوں کی کفالت کرنے کی بدنامی سے چھٹکارا پانا ہے۔ امریکہ اور دیگر بڑے ممالک نے وزیر اعظم کے واضح اور دوٹوک بیانات کی تعریف کی ہے۔ اب بھارت کے لیے بھی پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگانے کی کوئی وجہ تلاش کرنا مشکل ہوجائے گا۔

حافظ سعید کو ان کے بینک اکاؤنٹ تک رسائی کی اجازت کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی سے حالیہ درخواست یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان دنیا کو قائل کرانا چاہتا ہے کہ ملک ہر طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔ امریکہ نے اس اقدام کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔ امریکہ پر اعتبار کرنا پاکستانیوں کے لیے آسان نہیں لیکن وہ پھر بھی امید کرتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف اجلاس میں امریکہ پاکستان کے خلاف کسی سازباز سے باز رہے گا۔

پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے سنگین حالات کا شکار ہے۔ ان مشکلات سے نکلنے کے لیے اندرونی اور خارجہ پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لیے سمت درست ہونا لازم ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں ہمارا سرگرم کردار ایک ایسا موقع فراھم کرتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم تو ملک کو اس ادارے کی نگرانی کے عتاب سے نجات دلانا ہے۔ دوسرا اقدام اس عالمی مالیاتی نگران ادارے کی رکنییت حاصل کرنا ہو گا۔ وہاں بھارت کی بطور رکن موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔

بھارت نے یہ رکنیت 2010 میں حاصل کی۔ رکنیت کی شرائط میں کوئی خاص ابہام نہیں لیکن اگر ضرورت پڑے تو پاکستان اسے کیس سٹڈی بنا کر اپنی رکنیت کے لیے کوشش کر سکتا ہے۔

اس پر اتفاق نہیں تو چین، سعودی عرب اور ترکی جیسے دوست ممالک کی مدد لی جا سکتی ہے۔ خود ایف اے ٹی ایف بھی تیار ہو گی۔ فقط، سفر ہے شرط۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ