امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 مئی 2025 کو ’طلائی گنبد‘ یا ’گولڈن ڈوم‘ نامی دفاعی نظام بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد امریکہ کو بیلسٹک، کروز، ہائپر سونک میزائلز اور خلا سے داغے جانے والے میزائلز سے محفوظ رکھنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ’گیم چینجر‘ منصوبہ ان کے تین سالہ دورِ حکومت کے اختتام سے پہلے مکمل فعال ہو جائے گا اور امریکہ کو تقریباً 100 فیصد تحفظ فراہم کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام 1980 کی دہائی میں صدر ریگن نے شروع کیا تھا اور وہ اسے مکمل کر رہے ہیں۔
صدر کے مطابق اس نظام پر 175 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی، تاہم کانگریشنل بجٹ آفس کا کہنا ہے کہ اصل لاگت 542 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو گی۔
ظاہر ہے کہ صرف امریکہ ہی وہ ملک ہے، جو اس قسم کا خرچ برداشت کر سکتا ہے کیوں کہ اس کا موجودہ سالانہ بجٹ ایک ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ چین تین سو ارب ڈالر کے لگ بھگ اور روس ایک سو ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کے لحاظ سے امریکہ سے بہت پیچھے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا: ’ایک بار جب گولڈن ڈوم مکمل طور پر تعمیر ہو جائے گا، تو یہ میزائلوں کو روکنے کے قابل ہو گا، چاہے وہ دنیا کے دوسرے کونے سے یا چاہے خلا سے داغے جائیں۔ ہمارے پاس اب تک کا بہترین نظام ہو گا۔‘
امریکہ کو میزائل ڈھال کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکہ میں پیٹریاٹ اور نیشنل ایڈوانسڈ سرفیس ٹو ایئر میزائل سسٹم جیسے میزائل سے بچاؤ کے نظام پہلے ہی سے موجود ہیں، لیکن امریکی عسکری ماہرین کے مطابق اس مہنگے نظام کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چین، روس، شمالی کوریا اور انڈیا سمیت کئی ممالک نے گذشتہ چند سالوں میں ایسے میزائل تیار کیے ہیں، جو امریکہ کے موجودہ میزائل دفاعی نظاموں پر غلبہ پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان ہتھیاروں میں جدید بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے علاوہ نئے لانگ رینج ہائپر سونک میزائل شامل ہیں، جنہیں امریکہ اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ہائپر سونک میزائل وہ ہے، جس کی رفتار آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ہو، یعنی 6175 کلومیٹر فی گھنٹہ یا ماک 5۔
2019 میں روس نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ایسا میزائل تیار کیا ہے جو آواز سے 27 گنا زیادہ رفتار کا حامل ہے۔
بیلسٹک میزائل کے برخلاف ہائپرسونک میزائل داغے جانے کے بعد بھی اپنے ہدف کی تلاش میں اپنے راستے میں ردوبدل کر سکتا ہے۔
روس نے جاری جنگ میں یوکرین کے خلاف ہائپر سونک میزائل داغے ہیں۔ اس کے لیے علاوہ چین نے جدید ترین ہائپرسونک میزائل تیار کیے ہیں، اس لیے امریکہ کو ایک نئے دفاعی نظام کی ضرورت پیش آئی ہے۔
کسی ملک کا میزائل دفاعی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
میزائل کے دفاعی نظام کے کئی حصے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے سینسرز یا ریڈارز ہوتے ہیں جو میزائل داغے جانے کے فوراً بعد اس کی نشاندہی کر لیتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ان سینسروں کو ان علاقوں میں نصب کیا جائے جہاں سے میزائل داغے جانے کا خطرہ سب سے زیادہ ہو۔ امریکہ کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنے میزائل چین، روس اور شمالی کوریا کے اردگرد نصب کرے۔
اس کے بعد دنیا بھر میں پھیلا ہوا سینسرز کا نظام ضروری ہے، جو یہ بتائے کہ میزائل کس راستے سے گزر کر جائے گا اور سب سے اہم یہ کہ اس کی منزل کیا ہے۔
چونکہ امریکہ علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی طاقت ہے اور اس کے مفادات سارے براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لیے اسے درپیش ممکنہ خطرات کا تعلق بھی دنیا کے مختلف خطوں سے ہے، اس لیے یہ سینسر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ یہ سینسر نہ صرف زمین پر بلکہ سمندر میں اور خلا میں بھی موجود ہوں گے اور اسی حصے پر چین نے اعتراض کیا ہے۔
تیسرے نمبر پر انٹرسیپٹرز آتے ہیں۔ یہ دفاعی میزائل ہو سکتے ہیں جو دشمن کے میزائل کو راستے ہی میں تباہ کر دیتے ہیں۔
امریکہ کے پاس پہلے سے دنیا بھر اور خلا میں سینسرز اور انٹرسیپٹرز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے لیکن بنیادی طور پر وہ بیلسٹک میزائلز سے حفاظت کے نقطۂ نظر سے بنائے گئے تھے۔ ہائپر سونک میزائلوں کا پتہ لگانے کے لیے امریکہ کو اس نظام کو اپ گریڈ کرنا ہو گا اور مزید خلائی سینسرز کی ضرورت پڑے گی۔
دوسرے نمبر پر انٹرسیپٹرز کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہائپرسونک اور راستہ بدلنے والے دوسرے میزائلوں اور وار ہیڈز کو روک سکیں۔ ان انٹرسپیٹرز کے لیے امریکہ کو دنیا بھر میں پلیٹ فارم بنانا پڑیں گے۔ یہ پلیٹ فارم مختلف امریکی علاقوں میں، دوست ملکوں میں یا پھر سمندری جہازوں میں متحرک پلیٹ فارم بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ نظام کیسے بنایا جائے گا؟
گولڈن ڈوم کوئی ایک نظام نہیں بلکہ تین قسم کے نظاموں کا مجموعہ ہو گا۔ سب سے پہلا مرحلہ تو یہ ہو گا کہ دشمن کا میزائل شناخت کیا جائے۔ دوسرا، میزائل کو اس کے پورے راستے پر مسلسل ٹریک کیا جائے کیونکہ ہائپر سونک میزائل راستہ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تیسرا، ایک انٹرسیپٹر میزائل نظام ہو، جو دشمن کے میزائل کے قریب اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کر دے۔
سب سے بڑا چیلنج ہائپر سونک میزائل کو لگاتار ٹریک کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے لیے نئے قسم کے سینسرز اور مختلف پلیٹ فارمز کی ضرورت ہے جو ہائپر سونک میزائل کی پرواز کے تمام مراحل کو ٹریک کر سکیں۔ گولڈن ڈوم سینسرز کو مختلف پلیٹ فارمز پر ایک تہہ دار نظام کے تحت نصب کیا جائے گا، جن میں زمین، سمندر، ہوا اور خلا شامل ہیں۔
یہ پلیٹ فارمز مختلف قسم کے سینسرز سے لیس ہوں گے جو خاص طور پر ہائپر سونک خطرات کو مختلف مراحل میں ٹریک کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ دفاعی نظام خلا سے داغے جانے والے ہتھیاروں کو روکنے کے لیے بھی ڈیزائن کیے جائیں گے۔ انفراسٹرکچر زیادہ تر کثیر المقاصد ہو گا تاکہ وہ مختلف قسم کے میزائلوں سے دفاع کے لیے کارگر ہو۔
یہ نظام کتنا موثر ہو گا؟
اسرائیل کے آئرن ڈوم نظام کو دنیا میں سب سے مؤثر قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی سو فیصد مؤثر نہیں ہے اور کبھی کبھار حماس اور دیگر عسکریت پسند تنظیمیں اس پر بہت زیادہ سستے میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کر کے اسے گڑبڑا دیتے ہیں، لہٰذا ممکن نہیں کہ کوئی میزائل دفاعی نظام کبھی 100 فیصد تحفظ فراہم کر سکے۔
یہاں اہم مقصد روک تھام ہے، جیسے سرد جنگ میں سوویت یونین کے خلاف جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے روک تھام کا توازن قائم تھا۔ گولڈن ڈوم کے خلاف دفاع کرنے والے تمام ہتھیار بہت مہنگے ہیں۔ امریکہ مخالفین کی سوچ کو اس حد تک بدلنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنے قیمتی میزائلوں کو امریکہ پر داغنے سے گریز کریں کیونکہ انہیں اپنے میزائلوں کے ناکام رہنے کا زیادہ امکان ہے۔
کیا تین سال میں یہ نظام تیار ہو سکتا ہے؟
صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ یہ نظام 2029 تک فعال ہو جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ دورانیہ بہت کم ہے اور اس وقت تک اتنے بڑے نظام کو فعال کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
لیکن دوسری طرف کئی ملکوں کے پاس ابھی سے ہائپرسونک میزائل موجود ہیں، اس لیے امریکہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ امریکہ زیادہ وسائل جھونک کر اس کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کرے۔
چین کو اس نظام پر اعتراض کیوں ہے؟
چین نے اس نظام پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 21 مئی کو کہا کہ امریکہ کا یہ منصوبہ جارحانہ عزائم لیے ہوئے ہے اور اس سے خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ میں اضافہ ہو جائے گا۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ جلد از جلد اس نظام پر کام روک دے۔
بدھ کو بیجنگ میں ایک بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ گولڈن ڈوم ’اس اصول کی خلاف ورزی ہے کہ تمام ممالک کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جانا چاہیے اور اس سے عالمی تزویراتی توازن اور استحکام کمزور ہوتا ہے۔ چین اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔‘
گولڈن ڈوم اسرائیل کے آئرن ڈوم سے کس طرح مختلف ہے؟
آئرن ڈوم کو اسرائیل کی ڈیفنس کمپنی رفائیل (فرانسیسی طیارہ رفال کا اس سے تعلق نہیں) نے 2011 میں تیار کیا تھا جب کہ امریکہ نے بھی اس میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ نظام چار کلومیٹر سے لے کر 70 کلومیٹر کے فاصلے سے داغے جانے والے راکٹوں اور میزائلوں کو فضا ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رفائیل کا دعویٰ ہے کہ آئرن ڈوم نظام کی کامیابی کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ہے مگر دیگر ماہرین کے مطابق اصل شرح 80 فیصد کے قریب ہے۔ حماس کی جانب سے فائر کیے گئے کئی میزائل اسرائیلی علاقوں پر گرے، جنہیں یہ نظام روک نہیں سکا تھا۔
گولڈن ڈوم آئرن ڈوم سے کئی گنا زیادہ بڑا، جدید اور مہنگا نظام ہے۔ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے جسے اکثر و بیشتر کم لاگت والے میزائلوں کا سامنا رہتا ہے، جب کہ امریکہ بہت بڑا ملک ہے اور اسے بین البراعظمی ہائپرسونک میزائلوں سے خطرہ ہے۔
گولڈن ڈوم بمقابلہ ایس 400
حال ہی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ جنگ میں انڈیا کے دفاعی نظام ایس 400 کا خاصا چرچا ہوا۔ زمین سے فضا میں مار کرنے والا یہ نظام روس کا تیار کردہ میزائل ہے، جو 2007 سے روس کے زیرِ استعمال ہے۔ اسے روسی دفاعی ادارے الماز سینٹرل ڈیزائن بیورو نے تیار کیا ہے جو 1993 سے اس نظام پر کام کر رہے ہیں۔ یہ 400 کلومیٹر دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ امریکی پیٹریاٹ میزائل نظام کا متبادل ہے۔
اس سے پہلے روس ایس 200 اور ایس 300 بنا چکا ہے، اس طرح ایس 400 کو اس میزائل سسٹم کی چوتھی جنریشن کہا جا سکتا ہے اور اسے طیاروں، ڈرون، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل سمیت ہر قسم کے فضائی حملوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ میزائل نظام 250 کلومیٹر سے 400 کلومیٹر کے علاقے میں آنے والے فضائی حملوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ اس نظام میں پانچ قسم کے میزائل نصب ہیں جو ہدف کی نوعیت کے مطابق فائر کر کے اسے ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
روس اس سے قبل یہ میزائل نظام چین اور ترکی کو بیچ چکا ہے۔ انڈیا نے روس کے ساتھ 2018 میں ایک معاہدے کے تحت 5.43 ارب ڈالر مالیت سے یہ نظام خریدا تھا اور اسے تمام میزائل 2023 تک فراہم کر دیے جائیں گے۔
چین کے پاس یہ میزائل نظام پہلے سے موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے دو نظام انڈین ریاستوں لداخ اور اروناچل پردیش کی سرحد کے قریب نصب کیے ہیں، جب کہ ایک نظام تائیوان کے قریب لگایا ہے۔
رینج کے لحاظ سے ایس 400 کو آئرن ڈوم پر برتری حاصل ہے، کیوں کہ آئرن ڈوم کے برعکس ایس 400 طیاروں سمیت ہر قسم کے فضائی خطرے کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جب کہ آئرن ڈوم صرف راکٹ اور میزائل کے خلاف کارگر ہے۔
تھاڈ میزائل نظام
اخبار فائنینشل ایکسپریس کے مطابق ایس 400 کو امریکی میزائل نظام تھاڈ پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ تھاڈ ایک جگہ فٹ کیا جاتا ہے جب کہ ایس 400 کو ہیوی ڈیوٹی 8 بائی 8 ٹرکوں پر نصب کیا جاتا ہے، جنہیں چلا کر کسی بھی علاقے میں لے جایا جا سکتا ہے۔ چوں کہ یہ سارا نظام موبائل ہے اس لیے جنگ کے زمانے میں اسے دشمن کی طرف سے آسانی سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا اور خطرے کے پیشِ نظر اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکی تھاڈ نظام صرف طویل مار کرنے والے میزائلوں کے خلاف موثر ہے اور قریب سے فائر ہونے والے میزائلوں کے علاوہ دشمن کے جنگی طیاروں کے خلاف بھی کام نہیں کرتا۔
مزید یہ کہ تھاڈ کی رینج بھی ایس 400 کے مقابلے میں آدھی ہے یعنی 150 سے 200 کلومیٹر۔
ایک اور فرق یہ ہے کہ تھاڈ صرف ایک قسم کا میزائل فائر کر سکتا ہے جب کہ ایس 400 کے پاس کئی اقسام کے میزائل موجود ہیں، جنہیں ہدف کی نوعیت کے لحاظ سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پیٹریاٹ میزائل سسٹم
پیٹریاٹ کی رینج تھاڈ سے بھی محدود ہے اور یہ صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے تک میزائل لانچ کر سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پیٹریاٹ نظام کے موثر پن اور کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ 1991 میں امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ میں پیٹریاٹ نظام استعمال کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے عراق کی طرف سے فائر کیے جانے والے 47 میں سے 45 میزائلوں کو گرنے سے پہلے تباہ کر دیا تھا۔
تاہم بعد میں خود امریکی فوج نے تسلیم کیا کہ اس نظام کی کارکردگی صرف 50 فیصد ہے۔
سونا صدر ٹرمپ کی پسندیدہ دھات ہے اور انہوں نے کا استعمال اپنے جہاز اور اپنے گھر میں کر رکھا ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس نام کی مدد سے وہ امریکہ کو ایک ایسا دفاعی نظام فراہم کر سکیں جسے وہ اپنی وراثت قرار دے سکیں۔