ڈونلڈ ٹرمپ کا 175 ارب ڈالر کے ’گولڈن ڈوم‘ دفاعی نظام کا اعلان

امریکی صدر کے مطابق: ’یہ گولڈن ڈوم دنیا کے کسی بھی کونے سے، حتیٰ کہ خلا سے داغے گئے میزائلوں کو بھی روک سکے گا۔ یہ ہمارے ملک کی کامیابی اور بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 مئی 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں موجود، جہاں انہوں نے گولڈن ڈوم میزائل ڈیفنس شیلڈ کے بارے میں اعلان کیا (جم واٹسن/ اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ملک کے دفاع کے لیے ’گولڈن ڈوم‘ میزائل شیلڈ سسٹم کا اعلان کر دیا، جو تین سال میں فعال ہو جائے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 25 ارب ڈالر کی منظوری دی جبکہ اس پر مجموعی لاگت تقریباً 175 ارب ڈالر آئے گی۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا: ’میں نے انتخابی مہم میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ایک جدید ترین میزائل دفاعی شیلڈ بناؤں گا۔ آج میں اس اعلان پر خوش ہوں کہ ہم نے اس جدید نظام کے لیے باقاعدہ طور پر آرکیٹیکچر کا انتخاب کر لیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جب یہ مکمل طور پر تیار ہو جائے گا تو یہ گولڈن ڈوم دنیا کے کسی بھی کونے سے، حتیٰ کہ خلا سے داغے گئے میزائلوں کو بھی روک سکے گا۔ یہ ہمارے ملک کی کامیابی اور بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ امریکی سپیس فورس کے جنرل مائیکل گیٹلین اس منصوبے کی تکمیل کے ذمہ دار ہوں گے، جبکہ کینیڈا نے بھی اس میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے کیونکہ ’وہ بھی حفاظت چاہتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ ٹرمپ نے اس منصوبے کی کل قیمت 175 ارب ڈالر بتائی ہے، لیکن کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق خلا میں موجود میزائل انٹرسیپٹرز کے اخراجات 20 سال میں 161 ارب سے 542 ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتے ہیں۔

گولڈن ڈوم کے مقاصد اس سے بھی بڑے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق: ’اس نظام میں زمین، سمندر اور خلا میں جدید طرز کی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی، جن میں خلا میں موجود سینسرز اور انٹرسیپٹرز بھی شامل ہوں گے۔‘

ٹرمپ کے ساتھ موجود پینٹاگون کے سربراہ پیٹ ہیگسیٹھ نے کہا کہ یہ نظام ملک کو کروز میزائلوں، بیلسٹک میزائلوں، ہائپر سونک میزائلوں اور ڈرونز، چاہے وہ روایتی ہوں یا ایٹمی‘ سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

اس منصوبے کا نام گولڈن ڈوم اسرائیل کے آئرن ڈوم فضائی دفاعی نظام سے ماخوذ ہے، جس نے 2011 سے اب تک ہزاروں مختصر فاصلے کے راکٹوں اور دیگر میزائلوں کو روکا ہے، تاہم امریکہ کو جن میزائل خطرات کا سامنا ہے، وہ ان ہتھیاروں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں، جن کے لیے آئرن ڈوم تیار کیا گیا تھا۔

2022  کی میزائل دفاعی جائزہ رپورٹ میں روس اور چین سے بڑھتے خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق بیجنگ بیلسٹک اور ہائپر سونک میزائل ٹیکنالوجی میں واشنگٹن کے برابر آ رہا ہے جبکہ ماسکو بین البراعظمی میزائل نظام کو جدید بنا رہا ہے اور جدید ترین درست حملے کرنے والے میزائل تیار کر رہا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید خبردار کیا گیا تھا کہ ڈرونز کا خطرہ، جو یوکرین کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں، مزید بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا اور ایران سے بیلسٹک میزائل خطرات اور غیر ریاستی عناصر سے راکٹ و میزائل حملوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔

روسی اور چینی حکومتوں نے رواں ماہ کے آغاز میں گولڈن ڈوم کے تصور کو ’انتہائی غیر مستحکم کرنے والا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خلا کو ’جنگ کا میدان‘ بنا سکتا ہے۔

ماسکو کی جانب سے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا: ’یہ منصوبہ خلا میں جنگی کارروائیوں کے لیے ہتھیاروں کی تیاری کو بڑھاوا دینے کی کھلی اجازت دیتا ہے۔‘

امریکہ نے حالیہ برسوں میں میزائل اور ڈرونز کے دفاع کے حوالے سے اہم تجربہ حاصل کیا ہے۔ یوکرین میں امریکی نظاموں نے روسی میزائلوں کو روکا، جبکہ امریکی طیاروں اور جنگی بحری جہازوں نے گذشتہ سال اسرائیل پر ایرانی حملوں کے خلاف دفاع کیا اور یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحری جہازوں پر داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کو بار بار مار گرایا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ