22 مئی 2010 کو امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک شخص نے 40 ڈالر کے دو پیزا دس ہزار بٹ کوائن ادا کر کے خریدے، یعنی ڈھائی سو بٹ کوائن فی ڈالر۔ روپوں میں سمجھ لیں کہ تقریباً ایک بٹ کوائن ایک روپے کا تھا۔ آج بٹ کوائن کی قیمت دیکھیں تو سر چکرا جاتا ہے۔ آج ایک بٹ کوائن دو کروڑ 96 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ 2010 میں آپ نے ایک روپے کا ایک بٹ کوائن خریدا ہوتا تو آج آپ تقریباً تین کروڑ کے مالک ہوتے، یعنی بٹ کوائن کی قیمت میں تین کروڑ گنا کا اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ دماغ کو ماؤف کر دینے والا عمل اتنا پراسرار ہے کہ آج 15 سال بعد مسلسل خبروں میں رہنے کے باوجود شاید سو میں سے ایک آدھ شخص ہی اچھی طرح سے سمجھتا ہو گا کہ کرپٹوکرنسی اصل میں کام کیسے کرتی ہے اور اس کے پیچھے موجود بلاک چین ٹیکنالوجی کیا ہے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ آگے چل کر کرپٹو اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گی، اس لیے ہر شخص کے لیے اسے سمجھنا بےحد ضروری ہے۔ آخر میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ پاکستان میں کرپٹوکرنسی کی صورتِ حال کیا ہے اور حکومت کب اسے اختیار کرنے جا رہی ہے۔
کرپٹوکرنسی ہے کیا؟
روپیہ، ڈالر، ریال اور دوسری کرنسیوں کی ڈیجیٹل شکلیں موجود ہوتی ہیں، جیسے آن لائن ٹرانسفر کی صورت میں، لیکن آپ انہیں نوٹوں کی شکل میں نکلوا بھی سکتے ہیں۔
اس کے مقابلے پر کرپٹو کرنسی مکمل طور پر ڈیجیٹل کرنسی ہے، یعنی ایسی رقم جو صرف انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہے اور اس کے کوئی پرنٹ شدہ نوٹ یا سکے نہیں ہوتے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ روپیہ ڈالر اور ریال کو مختلف ملک کنٹرول کرتے ہیں اور اپنی ضمانت سے اسے جاری کرتے ہیں، لیکن کرپٹو کو کوئی بینک یا کوئی حکومت کنٹرول نہیں کرتی، نہ اس کی کوئی سرکاری ضمانت ہوتی ہے۔
تو پھر کرپٹو چلتی کیسے ہے؟
کرپٹو کرنسی ایک خاص قسم کی ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہے، جسے بلاک چین کہتے ہیں۔ جیسے بینکوں کے کھاتے کا رجسٹر ہوتا ہے، ایسے ہی بلاک چین ایک قسم کا انکرپٹڈ یا خفیہ ڈیجیٹل ریکارڈ ہے جو صرف آن لائن ہوتا ہے اور اسی میں ہر لین دین یا ٹرانزیکشن کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے۔ یہ ریکارڈ دنیا بھر کے کمپیوٹروں پر موجود ہوتا ہے اور ہر کوئی اسے دیکھ سکتا ہے، لیکن کوئی اس میں ردوبدل یا چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔
مختلف کرپٹو کرنسیاں مختلف بلاک چینز پر بنی ہوتی ہیں۔ بٹ کوائن، بٹ کوائن بلاک چین پر بنی ہے، جبکہ ایتھر، ایتھریم بلاک چین پر۔ کچھ نئی کرنسیاں پرانی کرپٹو کرنسیوں کی بلاک چینز پر بھی بنائی جا رہی ہیں، لیکن بنیادی اصول یہی ہے کہ ہر کرپٹو کرنسی کا ڈیٹا کسی نہ کسی بلاک چین پر محفوظ ہوتا ہے۔
بلاک چین چونکہ بےحد محفوظ ٹیکنالوجی ہے، اس لیے اسے صرف کرنسی ریکارڈ کرنے کے لیے ہی نہیں، بلکہ جائیداد کے کاغذات، یا کھانے پینے کی اشیا کا ریکارڈ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کرپٹو کرنسی کہاں سے آتی ہے؟
یہ کمپیوٹروں کے ذریعے ’مائننگ‘ کہلانے والے عمل سے بنتی ہے۔ مائننگ ویسے تو کان کنی کو کہتے ہیں، جس کے تحت زمین سے قیمتی معدنیات نکالی جاتی ہیں، مگر یہاں مائننگ کا مطلب ہے کہ ریاضی کے بےحد مشکل سوالوں کو کمپیوٹر کی مدد سے حل کرنا۔ جب کمپیوٹر کوئی سوال حل کرتا ہے تو اس کے بعد اسے کرپٹو کرنسی (جیسے بٹ کوائن) انعام کے طور پر ملتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو کمپیوٹر سب سے پہلے حل کرے، اسے نیا بٹ کوائن انعام میں ملتا ہے۔ اسی عمل کے دوران بٹ کوائن کے تازہ ترین لین دین کو بلاک چین میں شامل کیا جاتا ہے۔ زیادہ طاقتور کمپیوٹر رکھنے والے افراد یا کمپنیاں اس میں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔
جیسے جیسے زیادہ کمپیوٹر مقابلہ کرتے ہیں، سوال مزید مشکل کر دیا جاتا ہے اور ہر انعام میں ملنے والے بٹ کوائن کی تعداد وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
اس مائننگ کے عمل میں طاقتور کمپیوٹر دن رات چلتے ہیں، جو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں، اسی لیے کرپٹو کرنسی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ماحول دوست نہیں ہے۔
غیر مرکزیت
بلاک چین کا ریکارڈ کسی ایک کمپیوٹر یا ادارے کے پاس نہیں بلکہ ہزاروں کمپیوٹروں میں محفوظ ہوتا ہے، جو آپس میں مسلسل اپنا ڈیٹا چیک کرتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئی جعلی یا غلط لین دین آسانی سے ریکارڈ نہیں ہو سکتا۔
بلاک چین کا اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کوئی حکومت یا ادارہ مکمل کنٹرول نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کو غیر قانونی لین دین کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کرپٹو کرنسی کی قیمت کہاں سے متعین ہوتی ہے؟
روایتی کرنسی کی قیمت حکومت، سینٹرل بینک یا سونے کے ذخائر سے جڑی ہوتی ہے اور ہر نوٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ اسے حکومت کی ضمانت حاصل ہے۔ اس کے برعکس کرپٹو کرنسی کی قیمت حکومت کی ضمانت سے یا سونے چاندی وغیرہ سے نہیں بنتی۔ اس کی قیمت لوگوں کے بھروسے اور مارکیٹ میں طلب کی بنیاد پر مقرر ہوتی ہے۔ جتنے زیادہ لوگ خریدنے کے خواہش مند ہوں، اتنی ہی قیمت اوپر چلی جاتی ہے۔
اس کا استعمال کیا ہے؟
بہت سے لوگ کرپٹو کو سرمایہ کاری کے طور پر خریدتے ہیں کہ قیمت بڑھے گی اور انہیں منافع ملے گا۔ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کر کے بہت سے لوگ کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بنے ہیں۔
اس کے علاوہ اسے عام کرنسیوں کی طرح استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے بعض آن لائن ادارے کرپٹو کرنسی قبول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کسی کو رقم بھجوانی ہو تو کرپٹو کرنسی استعمال کی جا سکتی ہے۔
بلاک چین کتنا محفوظ ہے؟
کرپٹو کے شوقین اسے انتہائی محفوظ سمجھتے ہیں اور درحقیقت بٹ کوائن بلاک چین آج تک ہیک نہیں ہو سکی، البتہ ایتھریم میں 2016 میں ایک سکیورٹی مسئلے کے باعث پانچ کروڑ ڈالر مالیت کی ایتھر کرنسی چوری ہو گئی تھی (بلاک چین ہیک نہیں ہوئی تھی بلکہ یہاں ایک سافٹ ویئر کی کمزوری تھی)۔
اسی طرح کرپٹو ایکسچینج سائٹس کئی بار ہیک ہو چکی ہیں اور لوگوں کے لاکھوں ڈالر غائب ہو چکے ہیں۔
کرپٹو کرنسی کا ماحولیاتی اثر کیا ہے؟
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 21-2020 میں دنیا بھر میں کرپٹوکرنسی 173 ٹیراواٹ آور بجلی استعمال کر رہی تھی۔ اس کے مقابلے میں 24 کروڑ آبادی والے پاکستان کی بجلی کی مجموعی کھپت 145 ٹیراواٹ آور ہے۔
ماحولیاتی اثر اس بات پر بھی منحصر ہے کہ بجلی کس ذریعے سے حاصل ہو رہی ہے۔ اگر کوئلہ جلا کر اس سے بجلی بنائی جائے اور اس بجلی سے کرپٹو، تو پھر ماحول کو نقصان ہی نقصان ہے۔ البتہ صاف ذرائع سے بجلی حاصل کرکے ماحولیاتی نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور کرپٹوکرنسی: الجھن ہی الجھن
پاکستان میں کرپٹو کی بڑی دلچسپ صورتِ حال ہے، یعنی کوئی شفافیت نہیں۔ جمعرات کو حکومت نے کہا کہ کرپٹو پاکستان میں بدستور غیر قانونی ہے، لیکن اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف ایک کرپٹو کونسل کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب اسی ہفتے کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن کو قومی ذخائر کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کرپٹو کے لیے الگ سے دو ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرنے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔
لیکن غیر قانونی ہونے کے باوجود بہت سے پاکستانی کرپٹو کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ بائنینس جیسی ویب سائٹس اور ٹیلی گرام کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں کئی وارداتیں بھی ہو چکی ہیں، جن میں کرپٹوکرنسی استعمال ہوئی۔ مثال کے طور پر 2021 دو آسٹریائی باشندوں کو لاہور میں اغوا کر کے ان سے کرپٹوکرنسی سے ذریعے تاوان کی رقم وصول کی گئی تھی، تاہم ملزمان کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگ کرپٹو کا کام کر رہے ہیں اور پاکستان دنیا میں کرپٹو کے استعمال میں دسویں نمبر پر ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنے بڑی تعداد میں لوگوں کی کرپٹو میں دلچسپی اور اس کے کاروبار میں شمولیت کی وجہ سے حکومت کو کسی نہ کسی موقعے پر کرپٹو کو ریگولرائز کرنا پڑے گا تاکہ عام لوگ بھی اسے کھل کر اس نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کر سکیں۔