کراچی: ملک ریاض کی ملکیت بحریہ آئیکون ٹاور کی نیلامی 3 ستمبر کو متوقع

کراچی کی 300 میٹر بلند بحریہ آئیکون ٹاور ملک کی پہلی مکمل شہری طرز کی عمارت سمجھی جاتی ہے لیکن یہ منصوبہ تاخیر، قانونی پیچیدگیوں اور شدید مالی و انتظامی بحرانوں کا شکار ہے۔

کراچی کے قلب میں واقع بحریہ آئیکون ٹاور، جو پاکستان کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز رکھتی ہے، ایک وقت میں جدید تعمیرات، معاشی ترقی اور شہری سہولتوں کا ایک روشن خواب تھا۔ 

300 میٹر بلند یہ عمارت نہ صرف انجنیئرنگ کا کمال سمجھی جاتی ہے بلکہ اسے ملک کی پہلی مکمل شہری طرز کی عمارت کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔ تاہم گذشتہ کئی سالوں سے یہ منصوبہ تاخیر، قانونی پیچیدگیوں اور شدید مالی و انتظامی بحرانوں کا شکار ہے۔

کلفٹن میں واقع بحریہ آئیکون ٹاور 17 ہزار مربع گز پر پھیلا منصوبہ 62 منزلوں پر مشتمل ہے۔ 

اس عمارت کے آپریشنل ہونے کے بعد تقریباً 40 سے 50 ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ تاہم فی الوقت اس عمارت کا کام تقریباً پانچ سال سے رُکا ہوا ہے۔

اس عمارت میں تقریباً چھ بیسمنٹ پارکنگ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مال آف کراچی کے نام سے ایک وسیع شاپنگ مال بھی اس کا حصہ ہے، جو اسے کمرشل اور رہائشی زندگی کا امتزاج بناتا ہے۔ 

اس کے علاوہ سینما ہال، کارپوریٹ سیکٹر کے ہیڈ آفس اور اپارٹمنٹس بھی شامل ہیں۔ 

40 منزلیں لگژری اپارٹمنٹس کے لیے اور 10 کارپوریٹ دفاتر کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ عمارت کے بالائی حصے کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے جہاں ایچ وی اے سی سسٹم درجہ حرارت کو متوازن رکھتا ہے۔

بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر 2008 میں شروع ہوئی تھی اور اسے 2025 میں مکمل ہونا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سٹیٹ ایجنٹ نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اکثر یونٹس کے خریداروں نے پوری ادائیگیاں کیں، تاہم وقت گزرنے کے باوجود اب تک ان یونٹس کا قبضہ نہیں دیا گیا۔ ابتدا میں یہ سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش منصوبہ تھا لیکن حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان تنازع اور تعمیراتی کام میں تاخیر کی وجہ سے اس میں دلچسپی کم ہوئی ہے۔‘

سٹیٹ ایجنٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’پرائم لوکیشن پر بننے والی یہ بلند و بالا عمارت اب صرف ایک ڈھانچے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ 

’ابتدا میں جب بحریہ آئیکون کا فارم چار سے پانچ لاکھ روپے میں دستیاب تھا، تو لاکھوں لوگوں نے یہ فارم خریدے۔ اس وقت یہ ایک بہت مقبول منصوبہ تھا اور لوگوں نے بڑی تعداد میں اس میں سرمایہ کاری کی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آج اس منصوبے میں عوام کا اربوں روپے لگا ہوا ہے، لیکن نہ تو عمارت مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی لوگوں کو ان کے یونٹس دیے گئے ہیں۔‘

بحریہ کے مالک ملک ریاض نے ایک پوسٹ میں تمام واجبات ادا کرنے کی پیش کش کی ہے، لیکن اس بے یقینی کی صورتحال میں ایف بی آر نے اب ٹیکس نہ دینے پر تین ستمبر کو ایک بار پھر اس کی نیلامی کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔

احتساب عدالت کے ریفرنس کے مطابق یہ ٹاور سرکاری زمین کے غیر قانونی استعمال سے بنایا گیا۔ ایف بی آر نے 19 جون 2025 کو بھی اسے نیلام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان