’جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں‘: 65 کی جنگ میں فنکاروں کے عزم کی داستان

1965 کی جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور میں بطور پروڈیوسر فرائض انجام دینے والے ریاض محمود کہتے ہیں کہ ’جب انڈیا فضائیہ کے طیارے لاہور میں داخل ہوئے تو میڈم نور جہاں نے نغموں کی ریکارڈنگ روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں۔‘

روایتی حریف پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن چھ ستمبر 1965 کی جنگ کو برصغیر کی دونوں دشمن ریاستوں کے درمیان پہلی بڑی جنگ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسے یومِ دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس جنگ میں ایک اہم کردار اس وقت کے گلوکاروں کا بھی تھا، جنہوں نے اپنی آواز سے یہ لڑائی لڑی۔

اس وقت ریڈیو پاکستان، لاہور میں بطور پروڈیوسر فرائض انجام دینے والے ریاض محمود ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’فوج اگلے مورچوں پر لڑ رہی تھی جبکہ قوم اور ادارے فوج کی پشت پر کھڑے تھے۔ اس دوران اطلاعات کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان تھا۔ ہم نے 17 دن پوری محنت سے قوم کو لمحہ بہ لمحہ جنگ کے حالات سے آگاہ رکھا۔‘

ان کے مطابق: ’جنگ کے دوران فوجیوں کو مورچوں میں ریڈیو سننے کی سہولت موجود تھی۔ فوج اور قوم کا جوش بڑھانے میں سب سے اہم کردار ریڈیو سے چلنے والے نغموں نے ادا کیا۔ بڑے بڑے گلوکار خود ریڈیو پاکستان پہنچے اور اپنے نغمے ریکارڈ کرواتے رہے۔ سب سے زیادہ میڈم نور جہاں کے نغموں نے جوانوں کا خون گرمایا۔‘

 لاہور کے قریب بی آر بی نہر پر ہونے والا معرکہ اس جنگ کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن معرکہ مانا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریاض محمود بتاتے ہیں کہ ’جب انڈین فوج واہگہ بارڈر عبور کر کے پاکستان کے علاقے میں داخل ہوئی تو میجر عزیز بھٹی اور ان کے ساتھیوں نے جان کی پروا کیے بغیر وطن کا دفاع کیا۔ اسی لمحے نور جہاں کا نغمہ ریڈیو پر نشر ہوا ’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے توں لبھدی پھرے بازار کڑے‘ جس نے محاذ اور گھروں میں نئی روح پھونک دی۔‘

انہوں نے بتایا: ’لاہور سٹیشن پر ایک بم گرا تو میں اس کی کوریج کرنے گیا۔ عام شہری اس میں جان سے گئے مگر وہاں موجود لوگوں میں خوف نہیں بلکہ لڑنے کا جذبہ دکھائی دیا۔ لوگ اپنے گھروں سے کھانا بنا کر مورچوں کے قریب فوجیوں تک پہنچاتے۔ کرفیو کے باوجود جب دشمن کے جہاز آتے تو لوگ نعرے لگاتے۔ یہ بہت حیران کن مناظر تھے۔‘

’شاعروں اور ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں سے جذبہ بڑھایا۔ حبیب جالب خود ریڈیو لاہور پہنچے اور نظمیں پڑھیں۔ میں نے انہیں جاتے ہوئے کہا کہ ان نشر ہونے والی نظموں کا معاوضہ لیتے جائیں۔ انہوں نے غصے میں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا توبہ توبہ میں اس کا معاوضہ لوں گا اور چلے گئے۔

’لیکن شاید سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب انڈین فضائیہ کے جہاز لاہور پر پرواز کر رہے تھے اور ریڈیو کے سٹوڈیو میں نور جہاں نغمہ ریکارڈ کر رہی تھیں۔ انہیں کہا گیا کہ سب محفوظ مقام پر جا رہے ہیں، آپ بھی نکل جائیں۔ مگر نور جہاں نے جواب دیا: ’جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں‘ اور سازندوں کے ساتھ وہیں کھڑی رہیں اور نغمے ریکارڈ کروائے۔‘

ریاض محمود کے بقول: ’جب چھ ستمبر 1965 کی صبح وہ اپنی موٹر سائیکل پر ریڈیو کے دفتر آنے لگے تو پیٹرول پمپ پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں، دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور انڈیا نے حملہ کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزارا حالات سنگین ہوتے گئے لیکن ہماری بہادر افواج نے کئی گنا بڑے ملک اور زیادہ اسلحہ رکھنے والی فوج کو شکست دے دی۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اس لیے روایتی جنگ زیادہ طویل نہیں چل سکتی، اگرچہ حملے اور ان کے جوابی اقدامات کا سلسلہ ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔

اس جنگ سے متعلق مختلف رپورٹس میں پاکستان اور انڈیا، دونوں نے ایک دوسرے پر فتح کا دعویٰ کیا۔ تین ہفتے تک جاری رہنے والے اس معرکے میں پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے انڈیا کے 31 جبکہ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کے 43 جنگی طیارے مار گرائے۔

پاکستان کے جانی نقصان کے اعداد و شمار باقاعدہ جاری نہیں کیے گئے، تاہم انڈیا نے اپنے 1100 فوجیوں اور سول شہریوں کی موت کا دعویٰ کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی