روزنامہ جنگ نے اداریہ ختم کر دیا: صحافت کے فلسفے میں تبدیلی؟

کیا اداریہ واقعی پرانا اور بیکار فارمیٹ تھا، یا پھر جنگ کا یہ فیصلہ عوامی احتساب اور آزادیِ اظہار کی ایک اہم روایت کے خاتمے کی نشاندہی کرتا ہے؟

جنگ اخبار کے سات اور آٹھ ستمبر 2025 کے پرچے جن میں اداریہ نہیں ہے (جنگ گروپ)

روزنامہ جنگ کی انتظامیہ نے سالہاسال سے اخبار میں چھپنے والے اداریے کو مستقل بند کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دنیا کے بڑے بڑے اخبارات نے اپنے اداریے بند کر دیے ہیں، اس لیے جنگ نے بھی اپنا اداریہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

روزنامہ جنگ کی انتظامیہ کے ایک سینیئر ایڈیٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا بھر کے بڑے اخبارات جیسے برطانوی اخبار ’گارڈین‘ نے اپنا اداریہ چھوٹا کر دیا ہے، حالانکہ وہ اپنے اداریے میں بڑے پیمانے پر اپنے خیالات کو اظہار کرنے کے باعث شہرت رکھتا تھا۔ اس طرح ’یو ایس اے ٹو ڈے‘ نے بھی اپنا اداریہ مختصر کر دیا ہے۔ جب کہ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے اپنا اداریہ مستقل طور پر بند کر دیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو فیکٹ چیک: دنیا کے کئی بڑے اخباروں نے اداریوں کی تعداد میں کمی ضرور کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مکمل طور پر بند نہیں کیا۔ نیویارک ٹائمز ابھی تک اداریے چھاپ رہا ہے، البتہ یہ ہر روز نہیں آتا۔ ان کا آخری اداریہ پانچ ستمبر کو شائع ہوا تھا۔ 
البتہ اہم امریکی اخبار ’شکاگو سن ٹائمز‘ نے اس سال مارچ سے اداریہ چھاپنا بند کر دیا تھا۔ 

ان کے بقول، ’دنیا میں جو تبدیلی آ رہی ہے، اس کے تحت ہم نے بھی اداریہ بند کر دیا ہے۔ پاکستانی اخبارات دنیا کے ساتھ نہیں چل رہے ہیں۔ پاکستانی اخبارات میں کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو ایک دن پہلے ٹیلی ویژن پر چلتا ہے، وہی دوسرے روز اخبارات میں چھاپا جاتا ہے۔

’بنیادی طور پر صحافت کے فلسفے میں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے فلسفہ تھا جس کے تحت ہر اخبار اپنی پالیسی اداریہ میں لکھ کر پیش کرتا تھا، مگر اب ایسا نہیں رہا۔ ادارے کی پالیسی تو اپنی جگہ پر ہے مگر اس اس پالیسی کا لکھ کر تو اظہار نہیں کیا جا سکتا، اخبار کی پالیسی کا اظہار اس کی ہر خبر میں ہوا ہے۔‘

روزنامہ جنگ انتظامیہ کے سینیئر رکن نے سوال کیا کہ ’کیا ٹی وی چینلوں میں کوئی اداریہ نشر کیا جاتا ہے؟ اس طرح ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی اداریہ نہیں چھاپتے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اخبار میں مختلف خیالات کو جگہ دی جانی چاہیے، نہ کہ اپنے خیالات کو دوسروں پر تھوپنا چاہیے۔ ساری دنیا میں ہی نیا ٹرینڈ ہے، اب نیوز پیپر نہیں ’ویوز پیپر‘ کی ضرورت ہے۔ ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا آج کا نیوز پیپر ہے، جب کہ ٹی وی اور ڈیجیٹل پر ویوز یا خیالات کی جگہ نہیں ہے، اس لیے نیوز پیپر کو اب ویوز پیپر بننا ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’فریڈم نیٹ ورک‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے جنگ اخبار کے اداریے بند ہونے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’کسی بھی اخبار کا اداریہ مختلف موضوعات پر عوام کی آگاہی کے ساتھ مختلف معملات پر حکومت کے احتساب کا ذریعہ ہوتا ہے۔ مجھے جنگ کے اداریے بند ہونے پر بہت پریشانی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اقبال خٹک نے کہا کہ کسی بھی اخبار کا اداریہ اس اخبار کے خیالات ظاہر کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ عوام کی آگاہی اور حکومتی احتساب کی ذمہ داری اخبار نے رضاکارانہ طور پر لی ہوتی ہے، اس لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ یہ کام مکمل کرے۔

اقبال خٹک کے مظابق: ’پاکستان میں انسانی حقوق کے پیمانے بہت نیچے ہیں، اس کے علاوہ حکومت احتساب، عوام کی آواز اٹھانے کے کے لیے اخبار کا اداریہ ہونا ضروری ہے۔ جنگ کا اداریہ بند ہونے مجھے افسوس ہوا ہے۔‘

روزنامہ جنگ کے ایڈیٹوریل کے مستقل بند ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی محمد حنیف نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس طرح تبصرہ کرنا شروع کر دیا ہے، جیسے کوئی بہت ہی انوکھی بات ہو گئی، تبصرہ کرنے والوں کی اکثریت نے شاید ہی روزنامہ جنگ کا اداریہ پڑھا ہو۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد حنیف نے کہا: ’ماضی میں آمریتوں کے دوران اخبارات کسی بڑے واقعے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اداریے میں کرتے تھے تو اس کی ایک اہمیت تھی۔ یا کبھی کسی ایسے موضوع پر کوئی اداریہ لکھا ہو کہ اور کسی نے اداریہ پر خبر لکھ دی تو شاید لوگ اس اخبار کا اداریہ پڑھ لیتے ہیں۔

’موجودہ دور میں اخبارات کے اداریے سکول کے مضامین کی طرح لکھے جاتے ہیں۔ اس لیے کسی اخبار میں اداریہ ہو یا نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل