انگریزی اخبار ڈان کے پانچ ماہ سے اشتہار کیوں بند ہیں؟

حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کسی بھی میڈیا گروپ کو اشتہار دینا نہ دینا حکومت کا قانونی اختیار ہوتا ہے۔ تاہم جتنا حصہ بنتا ہے وہ اشتہار ہم سب کو ہی دیتے ہیں۔ لیکن کوئی ضروری نہیں کہ ڈان کو لازمی ہی اشتہار دینا ہیں۔‘

12 اگست 2022 کو ایک نجی چینل کے کو بند کرنے کے خلاف صحافیوں کا احتجاج (اے ایف پی)

پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ ڈان نے اپنے حالیہ اخباری اداریے میں الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے گذشتہ پانچ ماہ سے ان کے اشتہارات روک رکھے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومتی پالیسیوں سے متعلق حقائق پر مبنی خبروں کی وجہ سے وفاقی اور پنجاب حکومتوں اور سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے ڈان کے سرکاری اشتہار روکے ہوئے ہیں۔‘

البتہ اخبار کے چھ مارچ کے شمارے میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اشتہارات شائع ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ طویل عرصے سے اشتہار بند ہونے سے ادارہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ پنجاب (ڈی جی پی آر) غلام صغیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کسی بھی میڈیا گروپ کو اشتہار دینا نہ دینا حکومت کا قانونی اختیار ہوتا ہے۔ تاہم جتنا حصہ بنتا ہے وہ اشتہارات ہم سب کو ہی دیتے ہیں۔ لیکن کوئی پابندی نہیں کہ ڈان کو لازمی ہی اشتہار دینے ہیں۔‘

اس اقدام پر پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت ڈان جیسے اداروں کے اشتہارات بند کر کے آزادی صحافت اور تنقیدی ادارتی پالیسیوں کی بقا کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی جانب سے بھی ڈان گروپ کے سرکاری اشتہارات بند کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بھی دوسرے قومی میڈیا گروپوں کے مطابق اشتہارات جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سرکاری اشتہار کیوں نہیں مل رہے؟

ڈائریکٹر جنرل پی آر غلام صغیر کے بقول، ’ڈان انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے اشتہارات کیوں بند ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت اپنے بجٹ کے مطابق سرکاری اشتہارات جاری کرتی ہے۔ جس اخبار یا چینل کو چاہے حکومت اشتہار دے جس کو نہ چاہے اسے نہ دے۔ یہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ بلیک میل کر کے یا زبردستی اشتہارات حاصل کر سکے۔ ہم اپنی پالیسی کے مطابق اشتہار دیتے ہیں جتنا ڈان کو دینا ہوتا ہے وہ دیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈان کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ڈان میڈیا گروپ کی آزاد ایڈیٹوریل پالیسی کے ساتھ جس طرح ماضی کی حکومتوں کو اختلاف رہا ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت بھی آزاد صحافت کرنے پر ڈان گروپ سے ناراض ہے۔ وہ دیگر میڈیا گروپوں کی طرز پر ڈان کو بھی حکومتی  پالیسیوں پر آزادانہ تنقیدی خبریں دینے سے اجتناب کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔

’یہی وجہ ہے کہ اکتوبر 2024 سے وفاقی اور پنجاب حکومت نے تو مکمل اشتہارات بند کر رکھے ہیں۔ سندھ حکومت اپنی قیادت کی تشہیر کرنے سے اشتہارات مشروط کرنے کے لیے دباو ڈال رہی ہے۔ صرف کے پی کے حکومت کی جانب سے دیگر میڈیا گروپوں کے برابر اشتہار دیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’جب حکومتی عہدیداروں سے بات کرتے ہیں تو وہ ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ اشتہارات ہم نے بند نہیں کیے۔ لیکن سرکاری اشتہارات تو اپنی جگہ نجی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو بھی ڈان گروپ کو اشتہار دینے سے روکا گیا ہے۔ اس صورت حال میں ڈان گروپ مالی مشکلات سے دوچار ہے جس کے اثرات میڈیا ورکرز پر بھی آرہے ہیں۔‘

امتیازی سلوک کے ممکنہ اثرات

ڈان اخبار کے اداریے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’تنقید کو خاموش کرنا کوئی حل نہیں ہے، چاہے یہ مسئلہ سماجی، سیاسی یا کسی اور نوعیت کا ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کمزور حکمرانوں کو ہمیشہ اس سادہ حقیقت کو سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہے۔‘

اخبار کا مزید کہنا تھا کہ مختلف وقتوں میں ’آمروں کو پریس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا ہے۔ ایسے ہر دور میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے مفاد عامہ کو دوسری باتوں سے بالاتر رکھنے کا انتخاب کیا کیونکہ ذمہ دار اخبارات اور صحافی ہمیشہ جانتے تھے کہ وہ اپنے فرض سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔‘

صحافیوں کی قومی تنظیم پی ایف یو جے کے صدر رانا محمد عظیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ویسے تو ہر دور حکومت میں سب سے زیادہ خطرہ آزادی صحافت کو لاحق ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت نے تو میڈیا کا سانس بند کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ پہلے پیکا ایکٹ ترامیم کے ذریعے صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ اب ڈان میڈیا کے سرکاری اشتہارات روک کر نہ صرف اس آزاد ادارے بلکہ یہاں کام کرنے والے ورکرز کے روزگار بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘

رانا عظیم کے بقول، ’ملک میں یہ پہلا دور نہیں جس میں صحافتی پیشہ ور ادارے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اس سے پہلے بھی جبر تشدد کے باوجود صحافی ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ڈان پر بھی پہلی بار ایسا وقت نہیں آیا اس سے قبل بھی کئی بار اس ادارے کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ادارہ اور صحافی آج بھی وہیں موجود ہیں ان کے خلاف کارروائیاں کرنے اور کرانے والے تاریخ کا حصہ بن گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جو اخبارات حکومتی کارکردگی کے اشتہارات بنا کر خبروں کی جگہ پیش کرتے ہیں انہیں نوازا جا رہا ہے اور جو اخبار یا چینل تنقید کرتے ہیں ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔‘

اس بارے میں موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ سے رابطہ کیا گیا لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اخبار کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 'ڈان لیکس' کے بعد بعض افراد کے حکم پر ملک کے بڑے حصوں بالخصوص کنٹونمنٹ علاقوں میں اخبار کی اشاعت روک دی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ