افغانستان میں افغان طالبان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے ہفتے کو کابل میں ان کے حکام کے ساتھ افغانستان میں قید امریکی شہریوں سے متعلق بات چیت کی ہے تاہم ان کی رہائی کے حوالے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی ایلچی برائے یرغمالی ایڈم بولر اور سابق امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔
افغان وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں فریقوں نے باہمی تعلقات میں موجودہ اور مستقبل کے مختلف معاملات پر بات چیت کے تسلسل پر زور دیا، خاص طور پر ایک دوسرے کے ممالک میں قید شہریوں کے حوالے سے۔‘
واشنگٹن کی طرف سے اس ملاقات پر فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ زلمے خلیل زاد نے تبصرے کے لیے فون کال کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
واشنگٹن کے مطابق محمود حبیبی، جو امریکی شہری ہیں، سب سے نمایاں امریکی قیدی ہیں لیکن افغان طالبان ان کی حراست سے انکار کرتے ہیں۔
2021 میں افغانستان میں 20 سالہ امریکی فوجی مداخلت کے بعد اقتدار سنبھالنے والی طالبان انتظامیہ کو واشنگٹن تسلیم نہیں کرتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ نے دوحہ میں ہونے والے ماضی کے مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اب یہ بہترین موقع ہے کہ تعلقات معمول پر آئیں اور دوطرفہ تعلقات میں ایسے پیچیدہ مسائل نہیں جو حل کرنا بہت مشکل ہو۔‘
امریکی وفد کے سربراہ نے سب سے پہلے ملک کے مشرقی صوبوں میں آنے والے زلزلے پر تعزیت کی، کابل کا اپنا سابقہ دورہ مفید قرار دیا اور کہا کہ دونوں جانب پچھلی ملاقاتوں کے بعد کوششیں جاری رکھنی چاہئیں تاکہ اچھے نتائج حاصل ہوں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امریکی وفد کے سربراہ نے مزید کہا کہ ان کا ملک اقوام کی انتخابی آزادی کا احترام کرتا ہے اور افغان عوام پر کچھ مسلط نہیں کرنا چاہتا۔‘
اسی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے ان مواقع پر بھی بات ہوئی جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوں۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو حال ہی میں پاکستان اور بھارت کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ امریکہ نے طالبان سے اپنے ایک قیدی کی رہائی مطالبہ کیا تھا جو طالبان کی قید میں ہے۔
امیر خان متقی طالبان قیادت کے رکن ہونے کے باعث اُس پر اقوام متحدہ کی سفری پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت انہیں بیرونِ ملک سفر کرنے سے پہلے سفری استثنیٰ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مگر حالیہ اعلانات کے مطابق یہ استثنیٰ وقت پر منظور نہیں کیا گیا تھا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا کہ سفر کی منسوخی یا مؤخر ہونے کی وجوہات ’پروسیجرل معاملات‘ ہیں جن پر ابھی کام کیا جا رہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکہ نے استثنیٰ دینے سے انکار کیا، جس نے امیر خان متقی کا سفر روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔