انڈیا میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر ’کھلی نفرت پھیلانے‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔
بی جے پی نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں انتخابات سے قبل شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا۔
یہ ویڈیو وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کی آسام شاخ کے سرکاری ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی۔
اس میں مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر پیش کیا گیا، جو شمال مشرقی ریاست آسام میں سرکاری زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں۔
ویڈیو میں ایسے مسلمانوں کو دکھایا گیا جن میں سے زیادہ تر مردوں نے اسلامی ٹوپی، روایتی کرتا اور لنگی یا جنوبی ایشیائی تہبند پہن رکھی ہے۔
یہ لوگ ہوائی اڈے، چائے کے باغات، تاریخی مقامات اور ریاستی دارالحکومت گوہاٹی کے سٹیڈیم جیسے سرکاری اداروں میں موجود ہیں۔
ویڈیو میں مسلم خواتین کو حجاب یا برقعے میں دکھایا گیا۔ ویڈیو کے ساتھ درج تحریر میں کہا گیا کہ یہ ’بی جے پی کے بغیر آسام‘ کو ظاہر کرتی ہے اور اسے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر گورو گوگوئی کا ’خواب‘ قرار دیا گیا، جو بذات خود آسام کے رہائشی ہیں۔
اس میں اپوزیشن کی کانگریس پارٹی اور پاکستان کے درمیان ایک غیر واضح ’رابطے‘ کا دعویٰ بھی کیا گیا اور حزب اختلاف کے رہنما رہل گاندھی کو پاکستانی پرچم کے ساتھ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
ویڈیو میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ ریاست کی مسلم آبادی غیر معینہ مدت میں 90 فیصد تک بڑھ جائے گی۔
یہ دائیں بازو کے گروہوں کی پھیلائی جانے والی اس نام نہاد ’ریپلیسمنٹ تھیوری‘ کی بازگشت ہے، جس کے مطابق ایک دن مسلمان ہندوؤں کی جگہ انڈیا میں اکثریتی مذہب بن جائیں گے۔
موجودہ اعداد و شمار کے مطابق 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی شرح 34.22 فیصد تھی، جو آسام کی مجموعی ایک کروڑ سات لاکھ آبادی میں شامل ہے۔
We can’t let this dream of Paaijaan to be true!! pic.twitter.com/NllcbTFiwV
— BJP Assam Pradesh (@BJP4Assam) September 15, 2025
یہ ویڈیو ایسے وقت سامنے آئی جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات بہار 2026 میں ہونے جا رہے ہیں۔ ریاست میں ہندو قوم پرست بی جے پی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو سے اقلیتی برادری کے خلاف نفرت کو ہوا دینے اور اس ریاست میں کشیدگی اضافے کا خطرہ ہے جہاں مسلمانوں کو طویل عرصے سے ان کی نسلی اور مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
البنی میں سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے اسے ’برادری کی بنیا پر شاید سب سے زیادہ تقسیم پیدا کرنے والا اشتہار جو میں نے کبھی دیکھا‘ قرار دیا۔
انڈیا میں ’برادری کی بنیاد پر تقسیم‘ کا مطلب عام طور پر وہ چیز ہوتا ہے جو مذہبی نفرت یا تقسیم کو ہوا دے۔
مصنف اور ماہر تعلیم اپوروانند نے لکھا ’یہ حکمران جماعت بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کھلی نفرت انگیزی ہے اور یہ خوف ناک بات ہے۔
’یہ تشدد کی دعوت ہے۔ یہ کیسے برداشت کی جا رہی ہے؟ ہم اسے کیسے قبول کر رہے ہیں؟‘
کانگریس پارٹی کی ترجمان لاونیا بلل جین نے ویڈیو کو ’دوسری برادری سے دشمنی پر مبنی‘ اور ’انتہائی قابل نفرت‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انگریزوں نے تقسیم اور حکومت کی پالیسی شروع کی تھی، بی جے پی نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔‘
سیاسی تجزیہ کار تحسین پونا والا کے بقول ’کتنا خوف ناک اشتہار ہے۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ نفرت اور برادری دشمنی پر مبنی مواد کی ہماری سیاسی گفتگو میں کوئی جگہ نہیں۔ لوگوں کو اس طرح ذلیل کرنا درست نہیں۔‘
اداکارہ شریا دھنونتری نے سوال کیا کہ ’یہ انڈیا نہیں ہو سکتا۔ یہ اتنی نفرت انگیز اور غلط بات ہے۔
’کیا واقعی اس طرح کی نفرت انگیزی بغیر روک ٹوک جاری رہے گی؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘
اخبار دی ہندو کی ڈپلومیٹک ایڈیٹر سہاسنی حیدر نے لکھا ’ایک جمہوری ملک میں کوئی ’قومی‘ پارٹی ووٹ لینے کے لیے کسی مذہبی برادری کو شیطان بنا کر پیش نہیں کرتی بلکہ وہ سب کو نمائندگی دیتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو معلوم ہوگا کہ ایسے اشتہار کے بارے میں کیا کرنا ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے بی جے پی سے ردعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
بنگالی اور آسامی زبان بولنے والے ہندو، مسلمان اور قبائلی آبادی پر مشتمل آسام کئی دہائیوں سے تارکین وطن مخالف تحریک کا گڑھ رہا ہے جس میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے ’باہر والوں‘ کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔
بی جے پی نے آسام میں بارہا مسلمانوں پر الزام لگایا کہ وہ غیر ملکی تارکین وطن ہیں جن کے پاس دستاویزات نہیں۔
2016 میں آسام میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بی جے پی نے سلسلہ وار پالیسیوں کے ذریعے اپنے ہندو اور قبائلی ووٹ بینک کو مضبوط کیا جسے ناقدین، مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیتے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ ہمنت بسوا سرما ان سرکردہ رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے بارہا اپنی تقریروں میں اس برادری کو نشانہ بنایا۔
بی جے پی میں اسلاموفوبیا کے الزامات پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک جاتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، مودی نے 2024 کے عام انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران اپنی 173 تقاریر میں سے 110 میں اسلام مخالف بیانات دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان انتخابات میں وہ تیسری بار اقتدار میں آئے، اگرچہ ان کی نشستیں کم رہیں۔
اتوار کو مودی نے آسام کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ اپنے ووٹ بچانے کے لیے ’ملک دشمنوں‘ اور ’دراندازوں‘ کی حمایت میں کھڑی ہے۔
دونوں اصطلاحات ہندو قوم پرست بیانیے کے اشارے سمجھی جاتی ہیں۔
بی جے پی کی آسام شاخ نے بارہا ریاست کے مسلمانوں اور کانگریس کے رکن پارلیمان گورو گوگوئی کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ ویڈیوز کے ذریعے نشانہ بنایا۔
یہ اکاؤنٹ اکثر مسلمانوں کو ’کنگلوز‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ یہ ایک توہین آمیز لفظ ہے جو بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور گوگوئی کو ’میاں کا مسیحا‘ کہا جاتا ہے۔
’میاں‘ عام طور پر جنوبی ایشیا میں مسلم مردوں کی عزت کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر آسام میں یہ لفظ حقارت کے ساتھ ان مسلمانوں کے لیے بولا جاتا ہے جو 1947 کی تقسیم کے بعد مشرقی بنگال، یعنی موجودہ بنگلہ دیش، سے ترک وطن کرکے آئے۔
بی جے پی کی جانب سے یہ بھی جانا جاتا ہے کہ اس نے اے آئی سے تیار کردہ ویڈیوز شیئر کیں جن میں گوگوئی کو ٹوپی پہنے اور پاکستان کے فوجی سربراہ عاصم منیر سے فون پر بات کرتے دکھایا گیا۔
بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ گوگوئی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں، جسے کانگریس کے ایم پی نے مسترد کر دیا۔
وزیراعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے جمعے کو کہا کہ ریاستی کابینہ ریاستی انتخابات کے بعد ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر غور کرے گی جس میں گوگوئی کے پاکستان سے مبینہ روابط کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان کے بقول یہ 96 صفحات پر مشتمل رپورٹ حکومت کو جمع کرائی گئی ہے اور یہ ’بہت دھماکہ خیز‘ دستاویز ہے جو انڈیا کی سکیورٹی سے متعلق ہے۔
گوگوئی نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ صرف ایک بار، تقریباً 12 سال پہلے، پاکستان گئے تھے اور بی جے پی ’بری طرح ناکام‘ ہوگی۔
© The Independent