امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 16 ستمبر کو جاری ایک تفصیلی بیان میں ایران سے ’غیر قانونی‘ تیل خریدنے والی شخصیات اور کمپنیوں پر پابندیوں سمیت ایران کی چابہار بندرگاہ کے حوالے سے انڈیا کو دیا گیا خصوصی ریلیف ختم کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے ایران پر مختلف اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، تاہم 2018 میں افغانستان کی معیشت بہتر کرنے کے لیے چابہار بندرگاہ پر اقتصادی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ اجازت امریکہ نے سابق صدر جوبائڈن کے ایران اور دیگر ممالک کے مابین جوہری ہتھیار نہ بنانے کے 2015 کے معاہدے کے تحت دی تھی۔
اسی اجازت کی وجہ سے انڈیا نے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے ایران کے ساتھ مئی 2024 میں 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت چابہار بندرگاہ کے دو ٹرمینلز میں تقریباً 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا تھا۔
معاہدے کے دوران انڈیا کے وزیر برائے بندرگاہ و جہازرانی سربانندا سوناوال نے بتایا تھا کہ چابہار بندرگاہ انڈیا کو افغانستان اور وسطی ایشیا ممالک کو ملانے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔
چابہار بندرگاہ کتنی اہم ہے؟
چابہار بندرگاہ ایران کے سیستان بلوچستان میں خلیج فارس پر ایک سٹریٹجک مقام پر واقع ہے جو گوادر بندرگاہ سے تقریباً 130 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
انڈیا کے لیے یہ اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ انڈیا کی مصنوعات پاکستان کو بائی پاس کر کے آسانی سے افغانستان اور وسطی ایشیا ممالک سمیت یورپ تک پہنچ سکتی ہیں۔
امریکہ کے غیر سرکاری بین الاقوامی سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے ادارے سٹمسن سینٹر میں محقق محمد سلامی نے 2024 میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہا کہ چابہار بندرگاہ کے استعمال سے انڈیا چین کو بھی بائی پاس کر کے وسطی ایشیا ممالک تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
تاہم سلامی کے مطابق ایران پر امریکی اقتصادی پابندیاں اس بندرگاہ کے استعمال میں رکاوٹ ضرور ہیں جبکہ بندرگاہ کو وسطی ایشیا ممالک سے ملانے والی ریلوے لائن کا منصوبہ بھی ابھی تک مکمل نہیں ہے۔
اس مقالے کے مطابق گوادر اور چابہار بندرگاہوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو چابہار کے مقابلے میں گوادر بڑی بندرگاہ ہے اور گوادر 2030 تک سالانہ 400 ملین ٹن کارگو کی صلاحیت رکھے گا جبکہ چابہار کی اندازاً صلاحیت سالانہ 10 سے 12 ملین ٹن ہو گی۔
چین، امریکہ اور چابہار
امریکہ کا موقف چابہار کے حوالے سے مقالے کے مطابق مبہم ہے کیونکہ امریکہ چابہار بندرگاہ کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے استعمال کرنے کا قائل ہے۔
محمد سلامی نے لکھا ہے کہ ’چین گوادر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے گزرتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے وسطی ایشیا، روس اور یورپ تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ چابہار انڈیا سے شروع ہو کر، پاکستان اور چین کو بائی پاس کرتے ہوئے وسطی ایشیا اور یورپ تک رسائی میں مفید ثابت ہو گی۔‘
چین نے گوادر میں تقریباً 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس کے تحت پاکستان میں مختلف اقتصادی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ دوسری جانب چین نے 2021 میں ایران کے ساتھ 25 سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان تو کیا گیا تھا لیکن ابھی تک ایسا نظر نہیں آ رہا ہے۔
مقالے کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ چین چابہار میں سرمایہ کاری کرے گا، تاہم 2018 سے 2022 تک چین نے ایران کے تعمیراتی شعبے میں صرف 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد یوسف فارن پالیسی کے ماہر اور آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں بحر ہند اور جنوبی ایشیا میں مختلف ممالک کی جانب سے طاقت کے مقابلے کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں۔
محمد یوسف کے مطابق چابہار پر امریکی پابندی سے امریکہ اور انڈیا کے تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے کیونکہ انڈیا نے وہاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔
محمد یوسف نے بتایا، ’دوسری طرف انڈیا اگر چابہار سے نکلتا ہے تو اس سے ایران اور انڈیا کے دو طرفہ تعلقات پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ یہ تعلقات بنانے کے لیے ایک اہم منصوبہ تھا۔‘
محمد یوسف سے جب پوچھا گیا کہ چابہار بندرگاہ تجارت کے حوالے سے انڈیا کے لیے کتنی اہم ہے، تو اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انڈیا دراصل چابہار سے انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور کے ذریعے خلیج فارس کو بحر قزوین (کیسپیئن سی) کے ساتھ ملانا چاہتا تھا تاکہ وسطی ایشیا ممالک تک رسائی آسان ہو سکے۔
بحر قزوین ایران، روس، آذربائجان، ترکمانستان اور قازقستان کو ملانے والی دنیا کی سب سے بڑی لینڈ لاکڈ جھیل ہے۔
انڈیا کی جانب سے جمعے کو وزارت خارجہ کی بریفنگ کے دوران ترجمان جتھیندر جیسوال نے چابہار کے حوالے سے امریکی پابندیوں کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ابھی ہم جائزہ لے رہے ہیں۔
جیسوال نے بتایا کہ ’ہم نے میڈیا میں چابہار کو دی گئی رعایت ختم کرنے کے حوالے سے امریکی پابندیوں کا بیان دیکھا ہے اور انڈیا کی جانب سے اس بیان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘