انڈیا-ایران چابہار بندرگاہ معاہدے پر امریکہ کی دہلی کو تنبیہ

امریکی ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کے مقاصد اور ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا احترام کرتا ہے لیکن وہ ایران کے خلاف پابندیوں کو نافذ کرنے میں ثابت قدم ہے۔

ایران کے محکمہ جہازرانی کے مطابق 20 مارچ 2024 کو ختم ہونے والے ہجری شمسی سال میں پچھلے سال کے مقابلے میں چابہار بندرگاہ پر کنٹینروں کی آمدورفت میں 155 فیصد اضافہ ہوا ہے (ارنا)

انڈیا کی جانب سے ایران میں چابہار بندرگاہ کو ایک دہائی کے لیے چلانے کے اہم معاہدے پر دستخط کے چند گھنٹوں بعد امریکہ نے ایک محتاط بیان جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تہران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے 'کسی بھی ملک' کو 'پابندیوں کے ممکنہ خطرے' سے آگاہ ہونا چاہیے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے حوالے سے ایران اور بھارت کے درمیان معاہدے کا اعتراف کیا۔

پٹیل نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کے مقاصد اور ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا احترام کرتا ہے لیکن وہ ایران کے خلاف پابندیوں کو نافذ کرنے میں ثابت قدم ہے۔

ویدانت پٹیل نے پیر کو پریس بریفنگ میں کہا، ’ہم ان رپورٹس سے واقف ہیں کہ ایران اور انڈیا نے چابہار بندرگاہ سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، میں انڈین حکومت کو چابہار بندرگاہ کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات سمیت اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف پر بات کرنے دوں گا۔

پٹیل نے ایران کے ساتھ کاروباری لین دین پر غور کرنے والے اداروں کو متعلقہ خطرات سے آگاہ ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ’ایران پر امریکی پابندیاں بدستور برقرار ہیں اور ہم ان کا نفاذ جاری رکھیں گے۔ کوئی بھی ادارہ، جو بھی ایران کے ساتھ کاروباری معاہدوں پر غور کر رہا ہے، اسے پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔‘

انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) اور ایران کی پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن (پی ایم او) کے درمیان چابہار بندرگاہ آپریشن پر طویل مدتی دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں، جس سے اگلے ایک عشرے کے لیے چابہار بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبے کے اندر شاہد-محمدی بندرگاہ کے آپریشن کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

آئی پی جی ایل نے انڈیا کی طرف سے اضافی مالی مدد کے ساتھ بندرگاہ کو لیس کرنے اور چلانے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ آئی پی جی ایل بندرگاہ کو لیس کرنے میں تقریبا 120 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

بھارت نے چاہ بہار سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے مقصد سے باہمی طور پر نشاندہی کردہ منصوبوں کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کے مساوی ان کریڈٹ ونڈو کی بھی پیش کش کی ہے۔

یہ 10 سالہ طویل مدتی لیز معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے جبکہ خطے میں تجارتی برادریوں کے درمیان اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔

چابہار بندرگاہ انڈیا ایران فلیگ شپ منصوبہ قرا دیا جا رہا ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ انڈیا چابہار بندرگاہ کی ترقی اور آپریشن میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔

انڈین حکومت نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے افغانستان اور وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کے لیے ایک قابل عمل ٹرانزٹ روٹ بنانے والی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے میں شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پس منظر

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کی شاہرات اور شہری ترقی کی وزارت کے مطابق اس معاہدے کے تحت انڈیا ایران کی جنوب مشرقی سرحد کے قریب واقع بندرگاہ کو 10 سال تک استعمال کر سکے گا۔

معاہدے کے نتیجے میں انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) ’سٹریٹجک سازوسامان فراہم کرنے‘ اور ’بندرگاہ کے نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘ میں 37 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔

ایران کے شہری ترقی کے وزیر مہرداد بزرپاش اور انڈیا کے بندرگاہوں اور جہاز رانی کے وزیر سربانند سونووال نے چابہار شہر میں معاہدے پر دستخط کیے۔ تقریب سرکاری میڈیا پر براہ راست نشر کی گئی۔

انڈیا نے 2016 میں ایرانی بندرگاہ کو وسطی ایشیا کے تجارتی مرکز کے طور پر ترقی دینے کے لیے مالی اعانت پر اتفاق کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پابندیوں کے خاتمے کے بعد تہران کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی۔

مودی اور ایران کے سابق صدر حسن روحانی بندرگاہ کی ترقی کے لیے انڈیا کے ایگزم بینک سے لائن آف کریڈٹ کی فراہمی کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کی تقریب میں موجود تھے۔

انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) اور ایران کی پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن (پی ایم او) کے درمیان چابہار بندرگاہ آپریشن پر طویل مدتی دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں، جس سے اگلے ایک عشرے کے لیے چابہار بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبے کے اندر شاہد-محمدی بندرگاہ کے آپریشن کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

آئی پی جی ایل نے انڈیا کی طرف سے اضافی مالی مدد کے ساتھ بندرگاہ کو لیس کرنے اور چلانے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ آئی پی جی ایل بندرگاہ کو لیس کرنے میں تقریبا 120 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

بھارت نے چاہ بہار سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے مقصد سے باہمی طور پر نشاندہی کردہ منصوبوں کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کے مساوی ان کریڈٹ ونڈو کی بھی پیش کش کی ہے۔

چابہار بندرگاہ انڈیا ایران فلیگ شپ منصوبہ قرا دیا جا رہا ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ انڈیا چابہار بندرگاہ کی ترقی اور آپریشن میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔

انڈین حکومت نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے افغانستان اور وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کے لیے ایک قابل عمل ٹرانزٹ روٹ بنانے والی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے میں شامل ہے۔

ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے 2018 میں دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں میں چھوٹ کے باوجود بندرگاہ کی ترقی رک گئی تھی۔

2019 میں کوویڈ کا وبائی مرض پھیلنے سے پہلے دونوں ممالک نے انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے تہران کے دورے کے بعد اس منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

چابہار بندرگاہ پاکستان کی سرحد سے تقریبا 100 کلومیٹر (62 میل) مغرب میں بحر ہند میں واقع ہے۔

تجارت میں اضافہ

ارنا کے مطابق ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے محکمہ جہازرانی وبندرگاہ کے اعلی عہدیدار ناصر روان بخش نے اپریل میں 20 مارچ 2024 کو ختم ہونے والے گذشتہ ہجری شمسی سال کے دوران چابہار بندرگاہ پر کنٹینروں کی لوڈنگ اور ڈی لوڈنگ کی رپورٹ پیش کی۔

 انہوں نے بتایا کہ چابہار بندرگاہ سے چین، انڈیا اور متحدہ عرب امارات سےبراہ راست جہازوں کی آمد ورفت شروع ہونے اور اسی طرح بندرگاہ سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس شروع ہونے کے بعد، اس بندرگاہ کی کنٹینر سروسز میں تیزرفتار ترقی ہوئی اور گذشتہ سال ماضی کے مقابلے میں اس میں 155 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ چابہار سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس جنوری 2024 میں شروع ہوئی اور دو مہینے میں اس بندرگاہ  اور ملک کی دیگر بندرگاہوں کے درمیان 8 ہزار سے زائد کنٹینروں کی ٹرانشپ سرانجام پائی۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل