آج کل کے ٹی وی شوز میں پلک جھپکتے میں ڈبے کا نمبر بتاؤ اور موٹر سائیکل لے کر چلتے بنو۔۔۔ اگلے لمحے گاڑی بھی آپ کی ہو سکتی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ’کچا پاپڑ پکا پاپڑ‘ تیزی سے کہنے پر بھی قیمتی انعام جھولی میں گرے ملتے ہیں۔
یعنی ذہانت اور قابلیت کا نچوڑ اب صرف تُکے، رقص اور لفاظی تک رہ گیا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر موٹر سائیکل اور پھر گاڑی کا حصول آسان سے آسان ہوگیا ہے۔ کیا وہ دور تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن پر ذہانت سے بھرپور شوز نشر ہوتے تھے۔
میزبان اور مہمان دونوں اپنی قابلیت کو پرکھنے میں مصروف ہوتے تو ادھر ناظرین اپنی ذہانت کو گھر بیٹھے ٹٹول رہے ہوتے۔ طارق عزیز کی میزبانی والا ’نیلام گھر‘ اس لیے گھر گھر مشہور تھا کیونکہ اس کے ذریعے کچھ نہ کچھ معلومات عوام کو مل جاتی۔ طارق عزیز کی جانب سے مشکل سوالوں پر مہمانوں درست جواب پر انعام میں ملا واٹر کولر بھی ایسا لگتا جیسے ٹائی ٹینک جیت لیا ہو۔ خوشی انعام کی نہیں بلکہ اس احساس کی ہوتی تھی کہ قابلیت کی قدر ہوئی ہے۔دراصل واٹر کولر جیتنے سے زیادہ اس بات کی بھی خوشی ہوتی کہ ٹی وی پر جھلک نظر آئی ہے ۔
ایک صبر آزما آزمائش اور قابلیت کی عرق ریزی کے بعد جب گاڑی یا موٹر سائیکل جیتنے کے لیے مقابلہ ہوتا تو درجن بھر سوالات کے جواب دینے ہوتے۔ اب اندازہ لگائیں کہ نیلام گھر میں موٹر سائیکل یا گاڑی حاصل کرنے والی شخصیات آج تک ’سیلیبرٹی‘ کا مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہ ایک انعام کئی ہفتوں کی محنت کے بعد حاصل کیا تھا لیکن اب ایک گھنٹے کے پروگرام میں اتنی موٹر سائیکلیں بٹتی ہیں کہ لگتا ہے کسی شوروم نے کلیئرنس سیل لگا دی ہو۔
نیلام گھر میں درست سوالات کے جواب دینے پر گاڑی حاصل کرنے والے حافظ نسیم الدین نے راقم کو بتایا کہ جب انہوں نے یہ اعزاز پایا تو رہائش گاہ پر جشن کا ساسماں تھا۔ کئی روز تک تو رشتے داروں اور محلے داروں کے ساتھ ساتھ اجنبیوں سے بھی وہ گاڑی کی مبارک باد وصول کرتے رہے۔
پی ٹی وی نے اپنے آغاز سے ہی معلوماتی اورذہانت سے بھرپور کوئز پروگراموں میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔ اس سلسلے میں 1968میں پی ٹی وی کا پہلا کوئز پروگرام ’زینہ بہ زینہ‘ انتہائی مقبولیت حاصل کر گیا۔
اس کے بعد ’کسوٹی‘ شروع کیا گیا جس کے میزبان عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف کسی بھی شخصیت کو محض 20 سوالات کے اندر بوجھ لیتے کہ کس کا تذکرہ ہورہا ہے، خیر اب تو 20 منٹ میں بھی تُکے بازی کر کے کوئی یہ درست جواب نہیں دے پاتا کہ ڈبے میں ہے کیا؟
بہرحال صدر کراچی میں چیزوں کی نیلامی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’نیلام گھر‘ کا آئیڈیا آیا اور پھر 1975 سے طارق عزیز نے اس شو کا آغاز گیا تو جہاں سوالات پر انعام حاصل کرنے نے مقبولیت حاصل کی وہیں طارق عزیز کی منفرد اور اچھوتی میزبانی کے ساتھ ساتھ پروگرا م میں شامل مختلف سیگمنٹس آج تک مقبول ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ ریکارڈ ہے کہ نیلام گھر مختلف ادوار میں جب بھی شروع ہوا اس نے ناظرین کو اپنی گرفت میں رکھا۔
پاکستان کے پہلے نجی ٹی وی چینل ’این ٹی ایم‘ نے پی ٹی وی کے ہی مشہور شو ’کسوٹی‘ کو عبید اللہ بیگ، غازی صلاح الدین اور قریش پور کے ساتھ نئے انداز میں پیش کیا اور پھر پاکستان میں دھیرے دھیرے جب نجی چینلز کی برسات ہوئی تو کمرشل تقاضوں کے پیش نظر بیشتر چینلز کی بھی معلوماتی اور ذہانت سے بھرپور شوز کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔
انڈیا میں جب 2000 میں امیتابھ بچن کی میزبانی میں کوئز شو ’کون بنے گا کروڑ پتی؟‘ کا آغاز ہوا تو اس کی شہرت اور مقبولیت سے متاثر ہو کر ہی پاکستان میں 2002 میں ’کیا آپ بنیں گے کروڑ پتی؟‘ جیسا پروگرام شروع کیا گیا۔ معین اختر جیسے لیجنڈری میزبان نے پوری کوشش کی کہ یہ شو عوامی مقبولیت حاصل کرے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ شو کو دو مختلف سالوں میں پیش کیا گیا لیکن اس کی ناکامی کے بعد کسی اور چینل نے اتنی ہمت نہ کی کہ اس بین الاقوامی پروگرام کاپاکستانی وریژن پیش کرنے کے حقوق حاصل کیے جائیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہی ہے کہ انڈیا میں ’کو ن بنے گا کروڑ پتی؟‘ کے 25 سیزن نشر ہوچکے ہیں جس کے سپانسرز کی تعداد بھی اتنی ہی ہے جتنی کسی انڈین ڈراموں کی ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ ہی ہے اور پھر مختلف سیگمنٹس پر الگ سے انعام تو مخصوص ہیں۔
انڈیا کی مختلف علاقائی زبانوں میں بھی اس شو کو پیش کیا جارہا ہے یہاں تک کہ پروپیگنڈا مہم کے لیے بھی ’کون بنے گا کروڑ پتی؟‘ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے ذریعے عام ناظرین کو معلومات کا ڈھیر سارا خزانہ بھی ملتا ہے لیکن افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ اب پاکستان میں کوئی ایسا معلوماتی اور ذہنی سازی والا پروگرام نہیں جسے دیکھ کر ناظرین اپنی معلومات میں اضافہ کرسکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے پروگراموں میں سیر حاصل تحقیق ہوتی ہے۔ محقیقین کی ٹیم ہوتی ہے اور اب پروڈکشن ہاؤسز ڈرامے کے لیے پوری کابینہ رکھ سکتے ہیں لیکن معلوماتی پروگراموں کےلیے نہیں اور سب سے اہم اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے پروگراموں کے لیے سپانسرز کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
اب ہوتا صرف یہ ہے کہ رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کے دوران تین چار بچوں کو مدعو کرکے ان سے آسان سوالات دریافت کیے جاتے ہیں اور ان میں کچھ امیدواروں کی لاعلمی اور غلطیاں بھی عروج پر رہتی ہیں تبھی تو پروڈیوسر خوشی سے تالیاں بجا دیتا ہے کہ زبردست یہ تو وائرل کلپ مل گیا۔
کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ جو کچھ دکھائیں گے وہ ذہنوں میں سرائیت کر جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم گذشتہ کئی برسوں سے مختلف چینلز پر رقص، میک اپ ، عجیب و غریب کھیل کے ذریعے ایل ای ڈی ٹی وی سے لے کر عمرے کے ٹکٹ تک انعام میں دیتے چلے آرہے ہیں لیکن کوشش نہیں کی جاتی کہ کوئی ایسا ذہنی آزمائش کا بھی فاتح ہو جس نے اپنی قابلیت سے ڈنکے بجائے ہوں۔
گئے وقتوں میں پی ٹی وی کے مختلف شوز میں کالجز اور جامعات کے ذہین طالب علموں کے درمیان کوئز کے مقابلے ہوتے تھے لیکن اب ایسی مثال ملنے سے نہیں ملتی۔ سپانسرز کو لاکھوں روپے کی گاڑی بانٹنے میں مزہ آتا ہے، مگر علم بانٹنے میں ایک روپیہ بھی خرچ کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے اب قوم کی اجتماعی دانش صرف اس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ ’کس کے ڈبے میں کتنا تولہ چھپا ہے۔‘