تیراہ میں مرنے والوں کے ورثا کو ایک ایک کروڑ روپے معاوضے کا اعلان: گنڈاپور

وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی شہادت ناقابل قبول ہے۔‘

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے تیراہ میں جان سے جانے والوں کے لواحقین کو ایک ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے اور منتخب عوامی نمائندوں، تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور علاقہ مشران پر مشتمل جرگے کی اعلی عسکری حکام کے ساتھ ملاقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے دفتر سے یہ بیان پیر کو ضلع خیبر کے علاقے وادی تیراہ کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی، چیف سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، کمشنر پشاور اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں 20 سے زیادہ افراد کی اموات ہوئی ہیں جن کی وجہ ایک ادارے کے مطابق مبینہ فضائی حملہ تھا جبکہ دوسرے کے مطابق یہ بارودی مواد میں دھماکہ تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پیر کو فضائی بمباری سے خیبر پختونخوا کی وادی تیراہ میں کم از کم 23 شہری جان سے چلے گئے اور یہ واقعہ ایسے علاقے میں ہوا ہے جہاں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم حکومت یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے اس بارے میں اب تک کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے۔

وزیر اعلی خیبرپختونخوا سے ملاقات میں اس ناخوشگوار واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا جس میں 20 سے زیادہ افراد کی اموات ہوئی ہیں۔

وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی شہادت ناقابل قبول ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں فیصلہ ہوا ہے کہ عسکری حکام کے ساتھ جرگے کی ملاقات میں علاقے میں امن و امان کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حالیہ مہینوں میں خیبر پختونخوا کے ان پہاڑی علاقوں میں، جو افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں، سکیورٹی فورسز کے خلاف پرتشدد مہم تیز کر دی ہے۔

اقبال آفریدی، قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت کے رکن ہیں جن کا حلقہ تیراہ ہے جہاں حملہ ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سکیورٹی فورسز کے طیارے تھے جنہوں نے گولہ باری کی۔ انہی کی گولہ باری نے 23 افراد کی جان لی۔‘ پیر کی دوپہر خیبر پختونخوا اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے صوبائی رکن اسمبلی سہیل خان آفریدی نے بھی ریاستی اداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

دونوں ارکانِ اسمبلی سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت کے رکن ہیں۔

تیراہ کے قصبے میں تعینات ایک سینیئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ مرنے والوں میں سات عورتیں اور چار بچے شامل تھے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حملہ کس نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’جیٹ طیاروں نے چار گھروں کو نشانہ بنایا، جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔‘

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ’تیرہ پاکستان۔افغانستان سرحد کے قریب ہے اور یہاں ٹی ٹی پی کے متعدد ٹھکانے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اس علاقے میں سکیورٹی فورسز پر کئی حملے ہوئے ہیں۔‘

پشاور میں تعینات ایک سکیورٹی افسر، جنہوں نے ان اموات کی تعداد کی تصدیق کی، نے کہا کہ اس علاقے میں ’ٹی ٹی پی کے درجنوں ٹھکانے‘ ہیں جہاں عسکریت پسند اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے بھی یہ بتانے سے انکار کیا کہ حملہ کس نے کیا۔

پیر کی دوپہر، قریب کے ایک قصبے میں تقریباً دو ہزار افراد اس حملے کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔

پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن نے پیر کو ہونے والی اموات پر ’انتہائی صدمے‘ کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ’حکام فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کریں اور اس واقعے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں۔‘

دوسری جانب امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے خبر دی ہے کہ بم بنانے کا سامان، جو مبینہ طور پر پاکستانی طالبان کے جنگجوؤں نے ایک کمپاؤنڈ میں ذخیرہ کر رکھا تھا، پیر کے روز پھٹ گیا، جس میں کم از کم 24 افراد کی اموات ہوئی ہیں جن میں عسکریت پسند اور شہری دونوں شامل ہیں۔

یہ دھماکہ خیبر پختونخوا کے علاقے وادیٔ تیراہ میں ہوا اور اس نے کئی قریبی گھروں کو بھی تباہ کر دیا۔

مقامی پولیس افسر ظفر خان نے بتایا کہ کم از کم 10 شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، جان سے گئے ہیں جبکہ کم از کم 14 عسکریت پسند بھی مارے گئے ہیں۔

ظفر خان نے الزام لگایا کہ دو مقامی پاکستانی طالبان کمانڈروں، عامن گل اور مسعود خان، نے اس کمپاؤنڈ میں پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں، جو سڑک کے کنارے نصب کیے جانے والے بم بنانے کی فیکٹری کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔

انہوں نے عسکریت پسندوں پر الزام لگایا کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے اور حال ہی میں انہوں نے دیگر اضلاع کی مساجد میں بھی ہتھیار ذخیرہ کیے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہاراللہ خان کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں اموات کے بعد مقامی افراد نے باڑہ چوک میں دھرنا دے کر پاک افغان شاہراہ بند کر دی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وادی تیراہ تقریباً 100 کلومیٹر پر محیط وادی ہے، جس کا کچھ حصہ ضلع اورکزئی میں بھی شامل ہے اور یہ ایک سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد دیگر ضم اضلاع کی طرح خیبر اور وادی تیراہ میں شدت پسندی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور اس کی وجہ وادی کی افغانستان کے ساتھ متصل سرحد ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سی ایم ایچ بنوں میں زخمی اہلکاروں کی عیادت کے بعد بیان دیا تھا کہ ’دہشت گرد‘ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور یہاں پر کارروائی کر کے واپس افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔

پاکستان نے اس حوالے سے متعدد بار افغان طالبان کو احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے، تاہم افغان طالبان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔

ماضی میں ضلع خیبر خاص طور پر وادی تیراہ میں لشکر اسلام نامی شدت پسند گروپ سرگرم رہا ہے جس کی سربراہی منگل باغ کر رہے تھے، جو 2021 میں ایک مائن بلاسٹ میں افغانستان میں مارے گئے تھے۔

واقعے کے خلاف تحصیل باڑہ کے خیبر چوک میں دھرنا شروع کیا گیا جس میں علاقے کے منتخب اراکین سمیت علاقہ مکین موجود ہے اور پاک افغان شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا ہے۔

دھرنے سے خطاب میں خیبر سے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی نے بتایا کہ نہایت آفسوس ناک واقعہ ہے جس میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت 20 افراد جان سے گئے ہیں۔

واقعے میں اموات کی تعداد کی سرکاری سطح پر بھی تصدیق نہیں ہوسکی۔

دھرنے میں شامل اقبال آفریدی نے کہا کہ ’ہم تب تک یہاں بیٹھیں رہیں گے جب تک مرنے والے افراد کو انصاف نہیں ملے گا اور یہ ظلم بند نہیں کیا جاتا۔‘

پی ٹی آئی کے ضلع خیبر سے رکن صوبائی اسمبلی عبدالغنی آفریدی نے دھرنے شرکا سے خطاب میں تمام حکومتی امور کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔

عبدالغنی نے بتایا کہ جب تک مرنے والوں کے خون کا حساب نہیں لیا جاتا، صوبائی حکومت کی ہر سرگرمی سے بائیکاٹ ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ ہماری غیرت، بچوں اور ہماری آنی والی نسلوں کا سوال ہے اور میں آئی جی خیبر پختونخوا سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘

پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری بیان میں واقعے کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ بمباری سے پانچ مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

بیان میں لکھا ہے کہ اب تک 20 افراد کی لاشیں ملبے سے نکالی گئی ہیں جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے واقعے کی تفصیلات اور تصدیق کے لیے ضلعی پولیس افسر(ڈی پی او) راؤ مظہر اقبال اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تیراہ عصمت اللہ سے رابطے کی کوشش کی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان