خیبر پختونخوا میں بدھ کو قبائلی ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب پیش آئے واقعے کے بعد باڑہ سیاسی اتحاد نے حکومتی حکام سے مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔
وادی تیرہ میں پیش آئے واقعے پر پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس واقعے کی نوعیت کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں کہ واقعہ کیسے پیش آیا تھا۔
خیبر سے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی کے مطابق تیراہ میں مبینہ طور پر بمباری میں 20 افراد جان سے گئے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے، تاہم اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے بدھ کو باڑہ سیاسی اتحاد کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں جرگہ عمائدین سے ملاقات میں واقعے پر اظہار افسوس کیا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ علی امین گنڈا پور تعزیت اور مذاکرات کی غرض سے باڑہ گئے تھے اور واقعے میں جان سے جانے والوں کے لیے گذشتہ روز فی کس ایک کروڑ روپے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
باڑہ سیاسی اتحاد کے جنرل سیکرٹری عطا اللہ کا کہنا ہے کہ جرگہ اراکین نے پشاور میں ’عسکری و حکومتی‘ حکام سے ملاقات کی جس کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔
دھرنا ختم کرنے کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو میں عطا اللہ نے کہا کہ ’عسکری و حکومتی حکام کی جانب سے واقعے پر اظہار افسوس کیا گیا ہے اور یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عطا اللہ نے بتایا کہ ’مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ خیبر کے جرگہ اراکین دو دن بعد پشاور میں اعلیٰ عسکری حکام سے ملاقات کر کے خیبر میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جرگہ اراکین کو خیبر میں عسکریت پسندی ختم کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے تجاویز دینے کا کہا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے منگل کے واقعے کے حوالے سے جاری بیان میں واقعے کی ’شفاف تحقیقات‘ اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
وادی تیراہ میں عسکریت پسندی
وادی تیراہ تقریباً 100 کلومیٹر پر محیط ہے، جس کا کچھ حصہ ضلع اورکزئی میں بھی شامل ہے اور یہ ایک سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔
تاہم افغانستان میں افغان طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد دیگر ضم اضلاع کی طرح خیبر اور وادی تیراہ میں شدت پسندی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور اس کی وجہ وادی تیراہ کا افغانستان کے ساتھ ملحقہ بارڈر ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق شدت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور یہاں پر کارروائی کر کے واپس افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان نے متعدد بار افغان طالبان سے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تاہم افغان طالبان کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ارکان ان کے ملک میں موجود نہیں ہیں۔
ماضی میں ضلع خیبر اور خاص طور پر وادی تیراہ میں لشکر اسلام نامی شدت پسند گروپ سرگرم رہا، جس کی سربراہی منگل باغ کر رہے تھے، جو 2021 میں ایک مائن بلاسٹ میں افغانستان میں مارے گئے تھے۔