ایک گیت کی شہرت، پوری زندگی کی پہچان؟

کچھ گلوکار ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے بےشمار گیت گائے مگر صرف ایک گیت ہی ان کے ساتھ چپک کر رہ گیا۔

گلوکار حسن جہانگیر نے بہت سے گیت گائے مگر ان کی شناخت صرف ہوا ہوا ہی بنا رہا (حسن جہانگیر)

ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان سے ایک نوجوان گلوکار جب امریکہ کے مختلف شہروں میں پہلی بار کنسرٹس کے لیے گیا تو اس کی آمد سے قبل ہی ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو چکے تھے۔

کھچا کھچ بھرے کنسرٹ ہال میں گلوکار نے اپنے دو تین گانے بھی گنگنانے لیکن سب بے چینی سے انتظار کررہے تھے اس کے اس مدھر مشہور گیت کی ’کہانی‘ جو ذہنوں سے نکل نہیں پا رہا۔ اب اس گیت کو جیسے ہی اس نے پیش کیا تو بھلا کون سا شخص نہ ہوگا تو جو گلوکار کا ہمنوا نہ بنا ہو۔

گلوکار کے لیے ’ون مور ونس مور‘ کی صدا جیسے کوفت بنتی جا رہی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ اسی اکلوتے گیت کو سننے کے لیے دور دور سے یہ سب آئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گمنامی سے یکدم شہرت کی راہ پر آنے والے اس گلوکار کی ہی نہیں یہ ’کہانی‘ ہے۔

پاکستان کی موسیقی میں یہ المیہ عام ہے کہ کئی گلوکار اور بینڈز زندگی بھر ایک ہی گانے کی وجہ سے مشہور رہتے ہیں۔ وہ ایک گیت ان کی پہچان بن جاتا ہے بلکہ یہ کہیں تو زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ اس نغمے میں جیسے قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ذرا ماضی میں جھانکیں تو ایک لمبی قطار کھڑی نظر آئے گی گلوکاروں کی جنہوں نے درجن بھر گانے گائے لیکن ان کا ایک مشہور گیت جیسے ان سے چمٹ کر ہی رہ گیا۔ ایس بی جون کا ’تو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں،‘ ’شرافت علی کا‘ تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں‘ کو کون بھول سکتا ہے۔

گلوکار عاطف کے نام کے ساتھ تو ان کے مشہور گیت ’پانی کا بلبلہ‘ کی وجہ سے ’عاطف بلبلہ‘ ہی پڑ گیا۔ اسی طرح بےچارے خلیل حیدر نے کئی اور بہترین نغمے گائے لیکن کپڑے بدلنے کا جب بھی تذکرہ ہو تو ان کا گایا ہوا گیت ’میں کپڑے بدل کر جاؤں کہاں‘ خود بخود ذہن میں گونج اٹھتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن جہانگیر اچھے گلوکار تھے، مگر ان کا ’ہوا ہوا‘ ایسی آندھی ثابت ہوا کہ ان کی دیگر تمام گلوکاری کا چراغ اس کے سامنے نہ جل سکا۔ اسی طرح بچوں کو موسیقی کے گر سکھانے والے خالد انعم کا ’پیرا ہو‘ ہو یا پھر گلوکار ارشد محمود کا ’دیکھا جو تیرا چہرہ‘ جیسے ان کے ٹریڈ مارک بن چکے ہیں۔ اس فہرست میں ویسے آپ طاہر شاہ کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اب انہوں نے ’آئی ٹو آئی‘ جیسے بھی گایا ہو لیکن بھئی طاہر شاہ کے دیگر ’شاہکاروں‘ کے مقابلے میں اس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

اب یہ سب اس دور کے لوگ تھے جب شہرت کے دروازے تنگ تھے۔ سی ڈی، کیسٹ اور دو ٹی وی چینلوں پھر بھی ایک گیت نے ان کے نام مشہور کر دیے۔ لیکن آج جب سوشل میڈیا پر ہر دوسرا نوجوان خود کو اگلا عاطف اسلم سمجھ کر کیمرے میں گنگناتا ہے، تب بھی بیشتر کے حصے میں صرف ایک ہی ہٹ گانا آتا ہے۔ کچھ کے حصے میں تو وہ بھی نہیں۔

اندازہ لگائیں کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک میوزک گروپ نے ایسے ہی چلتے پھرتے گیت ترتیب دیا۔ سوشل میڈیا پر مشہور ایسا ہوا کہ ہر ایک کی زبان پر تھا جس کی شہرت نے ان کی زندگی ہی بدل دی اور اس سے بڑھ کراور کیا ہو گا کہ برطانوی گلوکار زین ملک کے ساتھ انہیں نغمہ سرائی کا موقع ملا، دنیا بھر میں شوز کیے جہاں وہ تواتر کے ساتھ وہی گیت گاتے رہے جس نے انہیں شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچایا لیکن اس کے بعد اس گروپ کے کسی اچھے اور مشہور گیت سننے کے لیے پرستار یہی صدا لگاتے رہے کہ ’تو ہے کہاں؟‘

 ان ’ون سونگ ونڈر سنگر‘ کو کسی کنسرٹ میں دیکھیں یا پھر ٹی وی شو میں تو ان کے آئٹم کا آخری خاصہ ان کا مشہور گانا ہی ہوتا ہے۔ جسے سننے کے لیے پرستار یہ جانتے ہوئے بھی کہ گلوکار ’لپ سنگ‘ کر رہے ہیں مہنگے ٹکٹ خرید کر کنسرٹ میں آتے ہیں۔

ایک ہی گیت کیوں مقبول ہوتا ہے؟

اب یہ ماضی والا دور تو نہیں کہ کسی بھی گلوکار کا کیسٹ یا سی ڈی آئے جس میں چھ ساتھ گیت شامل ہوں اور ان میں تین سے چار گانے مشہور ہو جائیں۔ گلوکار اب یو ٹیوب کا سہارا لیتے ہوئے تھوڑے وقفے کے بعد گیت اپ لوڈ کرتے ہیں۔ یہی نہیں سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔

کچھ ایف ایم چینلوں کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشریات کا پیٹ بھرنے کے لیے ان نئے گانوں کو تواتر کے ساتھ نشر کرتے ہیں۔ اسی طرح گلوکار یا ان کی میوزک کمپنی بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کے ذریعے اس گانے کے کسی خاص حصے کو وائرل کرنے میں اپنی ’ٹیکنالوجی ہوشیاری‘ کا سہارا لیتی ہے۔ اب ان سب کے بعد یہ گلوکاروں کی قسمت ہی ہے کہ ان کے گانے ہٹ ہو جائیں۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ کچھ گیت اپنی ویڈیو پروڈکشن کی وجہ سے دیکھنے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ اب یہاں ایک سادہ سا سوال یہ بھی ہے کہ آخر ایک گیت کے بعد دوبارہ جب کوئی گلوکار گیت پیش کرتا ہے تو وہ کیوں نہیں چل پاتا؟

اس متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ اکثر گلوکار پہلے ہٹ کے بعد عین اسی طرح کے گانے بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر شائقین نیا پن چاہتے ہیں۔ طے شدہ فارمولا زیادہ دیر نہی چلتا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ سمجھیں کہ کیفی خلیل کے ’کہانی سنو‘ ایک سپر ڈوپر ہٹ ثابت ہوا۔ لیکن اس کے بعد ان کے کم و بیش چھ سے سات گیت آ چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے ’کہانی سنو‘ جیسا کریز نہیں پیدا کیا۔

ابھی دو ہفتے قبل ہی کیفی خلیل کا ’شکایت‘ لاکھوں ویوز لے آیا، مگر گلی کوچوں میں آج بھی صرف ’کہانی سنو‘ کی صدائیں ہے۔

اس ضمن میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہمارے گلوکار اکثر اپنے ہی ہٹ گانے کے قیدی بن جاتے ہیں۔ مداح انہیں نیا کچھ کرنے نہیں دیتے، اور وہ بھی اپنی تخلیق سے زیادہ اپنی شہرت کو بچانے میں لگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ایک گانا امر ہوجاتا ہے اور باقی سب گمنامی میں دفن۔

موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین کے مطابق کوئی بھی گلوکار اپنی تخلیق میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑتا لیکن بسا اوقات وہ اپنے مشہور گیت کے سحر سے باہرنہیں نکل پاتا تبھی اس کے گانوں میں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ پھرایک مجبوری یہ بھی ہے کہ پرستار یا سننے والے ہمیشہ نئے گانے کا موازنہ پرانے سے کرتے ہیں۔ اور پھر ان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ پہلے والی بات نہیں۔

اب یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کچھ گلوکاروں کے برعکس ایسے بھی ہیں جو اپنے ہر نئے گیت کو پیش کرنے کے بعد پرانے والے کی یاد بھلا دیتے ہیں۔ مدھر موسیقی، دلکش اور پراثر شاعری ، گلوکاری کا اچھوتا انداز اور پھر نت نئے تجربات ان کی مقبولیت اور شہرت کو روز اول سے قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے چاہنے والے جانتے ہیں کہ ان کا یہ گلوکار اس نئے گیت میں ان کے دلوں کے تار چھیڑنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ