غزہ کے شہری دفاع کے ادارے نے کہا ہے کہ جمعے کو اسرائیلی فورسز نے غزہ بھر میں فضائی حملے کیے جن میں کم ازکم 50 لوگ جان سے گئے۔
اسرائیلی فوج غزہ شہر کارروائی تیز کر رہی ہے، جہاں سے حالیہ ہفتوں میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
شہری دفاعی ادارے جو حماس کی اتھارٹی کے تحت کام کرنے والی ریسکیو فورس ہے، نے بتایا کہ طلوع آفتاب سے شام تک علاقے بھر میں کم از کم 50 افراد کی جان گئی جن میں سے 30 غزہ شہر میں جان سے گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ فضائیہ نے گذشتہ روز ’پوری غزہ کی پٹی میں 140 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا جن میں دہشت گرد، سرنگیں اور فوجی ڈھانچے شامل ہیں۔‘
علاقے میں میڈیا پر پابندیاں اور کئی جگہوں تک رسائی میں مشکلات کے باعث اے ایف پی شہری دفاع یا اسرائیلی فوج کی جانب سے فراہم کردہ اموات یا تفصیلات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکی۔
غزہ شہر کے نزدیک الشاطی مہاجر کیمپ سے اے ایف پی کی فوٹیج میں فضائی حملے کے بعد عمارتوں کو پہنچنے والا شدید نقصان دکھائی دیا۔
ننگے پاؤں ایک کم عمر بچی بھی ملبے میں سامان تلاش کرنے والوں میں شامل تھی۔ گرے ہوئے کھمبوں نے زمین پر تاروں کا جال بچھا دیا تھا۔
ادھر جمعے کو اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ فوج نے حماس کی ’دہشت گرد مشین‘ کے بڑے حصے کو کچل دیا ہے اور وہ اس کام کو ’جتنی جلدی ہو سکے‘ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی تقریر جزوی طور پر غزہ میں فوجی لاؤڈ سپیکروں پر نشر کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان انڈیا سے تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
— Independent Urdu (@indyurdu) September 26, 2025
مزید تفصیل کے لیے: https://t.co/KZHtqnWVAe pic.twitter.com/cyS7lrT6KN
ان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ فوج نے ’غزہ کے مکینوں اور حماس کے ارکان کے ٹیلی فون اپنے قبضے میں لے لیے ہیں‘ اور یہ تقریر ان آلات پر براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔
لیکن غزہ کے وسطی علاقے دیر البلح میں رہنے والی 30 سالہ بے گھر فلسطینی رندا حنون نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ ہمیں فون پر کوئی پیغام یا کچھ بھی موصول نہیں ہوا، اور ہم نے کوئی لاؤڈ سپیکر بھی نہیں سنا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ صرف ہمارے دل میں خوف پیدا کرنے اور ہمیں نتن یاہو کی تقریر پر توجہ دلانے کی ایک کوشش ہے، لیکن ہمیں ان کی تقریروں کی کوئی پروا نہیں اور ہم ان کا ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتے۔‘
جنوبی غزہ میں موجود خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے دو معاونین اور غزہ سٹی میں ایک معاون نے بھی بتایا کہ انہوں نے نہ تو لاؤڈ سپیکروں پر تقریر سنی اور نہ ہی انہیں اپنے فون پر کچھ موصول ہوا۔
’ایک دوسرے پر ڈھیر‘
اسرائیل نے 16 ستمبر کو غزہ شہر پر زمینی حملہ شروع کیا۔ فوج نے جمعرات کو کہا کہ اگست کے آخر سے سات لاکھ فلسطینی اس شہری مرکز سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امدادی دفتر نے کہا کہ وسط اگست سے تین لاکھ 88 ہزار 400 افراد کی بے دخلی ریکارڈ کی گئی ہے، جن میں زیادہ تر غزہ شہر کے ہیں۔
المواصی کی ساحلی خیمہ بستی میں رہنے والی 50 سالہ بے گھر فلسطینی ام یوسف الشاعر نے اے ایف پی کو بتایا کہ جیسے جیسے مزید فلسطینی یہاں پناہ لے رہے ہیں، علاقے میں لوگوں کی تعداد حد سے زیادہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم سب ایک ہی خیمے میں ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر ہیں — میں، میرے شوہر، ہمارے چھ بچے اور میرے شوہر کے عمر رسیدہ والدین، 10 لوگ ایک چھوٹے سے خیمے میں ہیں۔‘
تقریباً دو برسوں میں غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے کم از کم 65 ہزار 549 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اور ان اعداد و شمار کو اقوام متحدہ قابل اعتبار سمجھتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے جمعے کو اقوام متحدہ میں غصے بھرے خطاب میں یورپی رہنماؤں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ملک کو ’قومی خودکشی‘ کی طرف دھکیل رہے ہیں اور حماس کو انعام دے رہے ہیں۔
نتن یاہو نے کہا کہ ان کی تقریر جزوی طور پر غزہ میں اسرائیلی فوج کے لاؤڈ سپیکروں پر نشر ہو رہی ہے۔ انہوں نے حماس کے خلاف ’کام ختم کرنے‘ کا عہد دہرایا جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے جنگ بندی پر معاہدہ طے کر لیا ہے۔
برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے چند دن بعد نتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے ’بہت واضح پیغام دیا ہے کہ یہودیوں کو قتل کرنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اسرائیل تمہیں یہ اجازت نہیں دے گا کہ تم ہمارے حلق میں ایک دہشت گرد ریاست ٹھونس دو۔ ہم قومی خودکشی نہیں کریں گے صرف اس لیے کہ تم میں اتنی ہمت نہیں کہ معاندانہ میڈیا اور اسرائیل کے خون کے متقاضی یہودی مخالف ہجوموں کا سامنا کر سکو۔‘
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، جو حماس کے حریف ہیں، نے جمعرات کو اپنے خطاب میں حملے اور یہودی دشمنی، دونوں کی مذمت کی۔ انہوں نے ورچوئل خطاب کیا کیوں کہ امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔
نیتن یاہو نے، جو دہائیوں سے فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے آئے محمود عباس کے لیے مغربی حمایت کا مذاق اڑایا اور فلسطینی اتھارٹی کو ’پوری کی پوری کرپٹ‘ قرار دیا۔
تاہم فلسطینی وزارت خارجہ کے عہدے دار عادل عطیہ نے نتن یاہو کے خطاب کو ’ایک شکست خوردہ شخص کی تقریر‘ قرار دیا۔
نیتن یاہو نے خاص طور پر مغربی کنارے کے الحاق کے مسئلے پر بات نہیں کی۔ ان کی کابینہ کے بعض ارکان نے اس عمل کو حقیقی فلسطینی ریاست کے کسی بھی امکان کو ختم کرنے کے طریقہ قرار دیا ہے۔
عام طور پر نیتن یاہو کے مضبوط حلیف ٹرمپ نے غزہ کے لیے ایک امن منصوبہ پیش کرتے ہوئے الحاق کے خلاف خبردار کیا ہے۔ منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنا شامل ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتن یاہو نے ٹرمپ کی بڑھ چڑھ کر تعریف کی، جن سے وہ پیر کو واشنگٹن میں ملیں گے۔
نتن یاہو کی تقریر کے فوراً بعد ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہمارے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔‘
کچھ میڈیا رپورٹس میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا نام امریکی تجاویز کے تحت غزہ کی عبوری اتھارٹی کے ممکنہ سربراہ کے طور پر لیا گیا۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان، جن کی حکومت حماس کی حامی ہے، نے جمعہ کو کہا کہ وہ غزہ میں کسی بھی جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔
احتجاج اور چکردار راستہ
جنگی جرائم کے الزامات، جن میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شامل ہے، پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہونے کے باعث اسرائیلی وزیر اعظم نے نیویارک پہنچنے کے لیے خلاف معمول راستہ اختیار کیا، جس میں تنگ آبنائے جبل الطارق کے اوپر سے پرواز بھی شامل تھی۔
جب وہ جنرل اسمبلی کے سٹیج کی طرف بڑھے تو کئی وفود ہال سے اٹھ کر چلے گئے۔ ٹائمز سکوائر کے قریب مظاہرین نے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے مارچ کیا۔
مظاہرے میں شامل نوجوان خاتون آندریا میریز نے کہا کہ ’جنگی مجرموں کو ذہنی سکون کا کوئی حق نہیں۔ انہیں نیند کا بھی حق نہیں۔‘ مذکورہ خاتون نیتن یاہو کے ہوٹل کے باہر پوری رات زور شور سے احتجاج کرتی رہیں۔
نتن یاہو نے اپنے خطاب میں غزہ میں نسل کشی کے الزامات کو شدت سے چیلنج کیا اور کہا کہ غزہ کے شہریوں سے علاقے سے نکلنے کی بار بار اپیل کی گئی۔
انسانی ہمدردی کے قانون میں جبری بے دخلی کو بھی جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔ جنگ کے دوران غزہ پٹی کی تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔