’غم اور خوشی ایک ساتھ‘: لاہور کے فلڈ ریلیف کیمپ میں شادی کی تقریب

لاہور کے علاقے چوہنگ میں قائم سیلاب متاثرین کے کیمپ میں ہونے والی اس شادی میں جہیز اور دلہن کے لیے عروسی لباس الخدمت فاونڈیشن نے فراہم کیا۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے چوہنگ میں قائم سیلاب متاثرین کے کیمپ میں بدھ کو ایک شادی کی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جہاں کیمپ میں مقیم علی رضا، طیبہ ریاض کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

دونوں خاندانوں نے کیمپ میں رہائش کے دوران ہی یہ رشتہ طے کیا تھا۔

دھوم دھام سے ہونے والی اس شادی میں جہیز اور دلہن کے لیے عروسی لباس الخدمت فاونڈیشن نے فراہم کیا۔

اس شادی کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ طیبہ ریاض کی شادی کی تقریب اسی خیمہ بستی میں قائم سیلاب سے متاثرہ بچوں کے عارضی سکول میں ہوئی، جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔

طیبہ ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ گھر کی دہلیز کی بجائے انہیں سیلاب متاثرین کے لیے بنائے گئے کیمپ کے خیمے سے رخصت ہونا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا: ’اگست میں آنے والے سیلاب کے دوران ہم یہاں کیمپ میں آئے تو لڑکے کی ماں نے مجھے پسند کر لیا۔ مجھ سے والدین نے رائے لی تو میں نے بھی والدین کی خوشی میں رضامندی کا اظہار کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آج میری شادی ہو رہی ہے۔ ہر لڑکی کا ارمان ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے رخصت ہو کر خاوند کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کرے۔ میں بھی اس امید کے ساتھ رخصت ہورہی ہوں کہ اللہ میرا نصیب بھی بہتر کرے اور مجھے بھی اچھی زندگی گزارنے کا موقع ملے۔‘

دلہن کے والد محمد ریاض نے بتایا کہ ان کی چھ بیٹیاں ہیں۔ ’یہاں خیمہ بستی میں ہمارے ساتھ رہنے والے ایک خاندان نے بچی کا رشتہ مانگا تو ہم نے تو فرض ادا کرنا ہی تھا، لہذا ہم نے الخدمت فاونڈیشن انتظامیہ کی مشاورت سے رشتہ طے کیا۔ ایک دن رضا مندی ہوئی، دوسرے دن منگنی اور چند دن کے وقفے سے آج شادی ہو رہی ہے۔

’نکاح کے بعد میری بیٹی ابھی تو ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں جائے گی لیکن چند دن بعد (سیلابی) پانی ختم ہونے پر اپنے خاوند کے گھر چلی جائے گی۔ ہم نے اپنی بیٹی کے لیے جو جہیز بنایا تھا وہ تو سیلاب کے پانی میں ڈوب گیا۔ اب سارا خرچہ الخدمت فاونڈیشن کر رہی ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘

دلہا علی رضا کا کہنا تھا کہ ’سیلاب کے بعد یہاں چند دن پہلے میری والدہ کو لڑکی پسند آگئی، انہوں نے مجھے دکھائی تو میں نے بھی ہاں کر دی، لہذا ہماری شادی طے ہوگئی۔‘

علی رضا ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’کوشش ہوگی کہ اپنی بیوی کو خوش رکھ سکوں۔ میں بھی اس شادی سے خوش ہوں لیکن افسردہ اس لیے ہوں کہ بے گھر ہونے کی حالت میں شادی ہو رہی ہے۔ اپنے گھر میں کئی ارمان ہوتے ہیں وہ پورے نہیں ہوں گے۔‘

الخدمت فاؤنڈیشن کے رابطہ کار شعیب ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’دریائے راوی کے پانی سے زیر آب آنے والی تھیم پارک کے 1500 کے قریب گھرانوں کو ہم نے کیمپوں میں رہائش دی اور ان کا خیال رکھا، لیکن خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اب یہاں کیمپ کے دو گھرانوں کے بچوں کی شادی کی تقریب ہو رہی ہے۔ یہاں اب بھی 600 کے قریب خاندان مقیم ہیں اور اس شادی سے تمام متاثرین کے چہروں پر خوشی کا رنگ دیکھنے کو مل رہا ہے۔‘

شعیب ہاشمی نے بتایا: ’ہم نے کوشش کی کہ شادی کی تقریب میں کوئی کمی نہ رہے، اس لیے پوری طرح اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں شادی کی اس پہلی تقریب سے واضح ہوگیا کہ متاثرین اب اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔‘

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کئی شادیاں طے تھیں جو ملتوی ہوگئیں، تاہم جھنگ اور قصور میں سیلاب کے دنوں میں ہی ریسکیو کی کشتیوں پر بارات لے جا کر شادیاں ہو چکی ہیں۔ 

کئی متاثرین سیلاب ایسے بھی ہیں، جن کی بیٹیوں کا جہیز سیلاب کی نذر ہو گیا اور انہیں شادیاں منسوخ کرنی پڑیں۔

سیلاب کے دوران نو لڑکیوں کا جہیز بہہ جانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد گورنر پنجاب سلیم حیدر خان نے متاثرہ لڑکیوں کی شادی کی ذمے داری لی ہے، جن کی گھروں سے پانی نکل جانے کے بعد شادیاں کروائی جائیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان