کراچی میں سندھ کے جنگلی حیات میوزیم کے مرکزی ہال کی دیواریں رنگا رنگ تصاویر سے مزین ہیں، جن میں کئی قسم کے جانوروں، پرندوں اور حتیٰ کہ کیڑوں مکوڑوں کے دل موہ لینے والے عکس نظر آتے ہیں۔
یہ تصاویر بنانے کا سہرا کراچی کے رہائشی 91 سالہ ایس ایم شاہد کے سر جاتا ہے، جنہوں نے 1980 میں سندھ میں پائے جانے والی جنگلی حیات کو تصویری شکل میں محفوظ کیا۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے حکام کے مطابق پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود صوبے کے چرند پرند کے یہ پوسٹرز یا تصاویر منفرد اور بے مثال ہیں۔
سندھ کے عام پرندوں، بطخوں، ممالیہ اور مچھلیوں سمیت مختلف اقسام کی الگ الگ کیٹیگریز پر مشتمل ان پوسٹرز میں جانوروں اور پرندوں کی تصاویر کے ساتھ ان کے سندھی، اردو اور انگریزی نام اور دیگر تفصیلات بھی درج ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1951 سے کراچی میں رہائش پذیر ایس ایم شاہد کو بچپن میں ہی جنگلی حیات سے رغبت پیدا ہو گئی تھی، جب وہ اپنے ماموں کے ساتھ شکار پر جایا کرتے تھے۔
بعدازاں انہوں نے 1963 میں آسکر ایڈورٹائزنگ ایجنسی قائم کی، جسے وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کے خواہش مند تھے۔
ایک وقت آیا جب ان کی ایجنسی سندھ جنگلی حیات بورڈ سے منسلک ہوئی اور محکمہ جنگلات سندھ کے صوبائی کنزرویٹر خان محمد کے ساتھ ایس ایم شاہد کو کراچی کے گرد و نواح میں جنگلی حیات کے مسکن والے علاقوں میں گھومنے کا موقع ملا۔
ایس ایم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم خان محمد کی جیپ میں ہالیجی جھیل، کھیرتھر نیشنل پارک کے کرچاٹ، کھار کنزویشن سینٹر، ہڈیرو جھیل اور دوسری جگہوں پر جنگلی حیات دیکھنے جایا کرتے تھے۔
’اس دوران خان محمد نے ایک خیال پیش کیا کہ سندھ کے مقامی پرندوں، جانوروں، ممالیہ سمیت مختلف چرند پرند کی علحیدہ علحیدہ کیٹیگریز میں پوسٹر بنائے جائیں۔ خیال اچھا تھا، مگر اتنی ساری اقسام کے جانوروں کی تصاویر حاصل کرنا، ان کے مقامی نام کے علاوہ سندھی، اردو اور انگریزی نام تلاش کرنا ایک مشکل کام تھا۔‘
اس دلچسپ اور اچھوتے خیال پر ایس ایم شاہد نے کام شروع کیا اور 1982 میں بڑی تحقیق کے بعد یہ پوسٹرز مکمل ہوئے۔
ایس ایم شاہد نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ سمندری کچھوؤں، کھیرتھر نیشنل پارک اور ہالیجی جھیل پر بھی کام ہوا اور اور ان پر معلومات کے علاوہ تصاویر پر مشتمل کتابچے بھی تیار کیے گئے۔‘
محکمہ جنگلی سندھ کے صوبائی کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے خیال میں چرند و پرند کی تصاویر پر مشتمل یہ پوسٹر پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود ’بے مثال‘ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دیگر خطوں کے مقابلے میں سندھ حیاتی تنوع کے لحاظ سے انتہائی بھرپور خطہ ہے، جہاں کے مقامی جانورں میں 107 اقسام رینگنے والے، 82 ممالیہ اور 322 پرندوں کی ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف نے دسمبر 2019 میں سندھ کا واحد سرکاری وائلڈ لائف میوزیم 20 سال بعد بحال کیا تھا، جس میں رینگنے والے جانوروں اور ممالیہ کے حنوط شدہ نمونوں کے علاوہ پرندوں پرندوں کی تصاویری پوسٹرز بھی لگائے گئے ہیں۔