جعفر ایکسپریس: دنیا کی سب سے خطرناک ٹرین؟

پشاور سے کوئٹہ تک کا 1,000 میل کا سفر کرنے والی جعفر ایکسپریس پر بار بار بم حملے ہوئے، اسے ہائی جیک کیا گیا اور اس کے آگے سے پٹریاں اکھاڑی گئیں۔

پاکستانی ایف سی کے ارکان 15 مارچ 2025 کو جعفر ایکسپریس کے قریب۔ اس ٹرین کو عسکریت پسندوں نے اغوا کر لیا تھا (اے ایف پی)

صرف 2025 میں اسے کم از کم سات بار بموں سے اڑایا گیا، اغوا کیا گیا، گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، اور پٹری سے اتارا گیا، جس سے یہ عسکریت پسندوں کے تشدد کا ایک اہم ہدف بن گئی ہے۔

منگل کو ایک طاقتور دھماکے سے ٹرین کو شدید نقصان پہنچا جس میں کم از کم سات افراد زخمی ہو گئے، یہ تازہ ترین واقعہ تھا جس میں صوبہ سندھ کے سلطان کوٹ ریلوے سٹیشن کے قریب اس کی چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔

یہ دھماکہ، جو ایک دیسی ساختہ بم سے ہوا، اس سال شورش زدہ صوبہ بلوچستان کو باقی پاکستان سے ملانے والی مسافر ٹرین پر ساتواں حملہ تھا۔

پولیس نے بتایا کہ ڈیوائس میں تقریباً پانچ پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا، جو پشاور سے کوئٹہ جانے والی ٹرین کے گزرتے وقت پٹری پر پھٹا۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے عرب نیوز کو بتایا، ’آج صبح سلطان کوٹ ریلوے سٹیشن کے قریب دھماکے کے نتیجے میں چار بوگیاں الٹنے سے کم از کم سات افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک تھی۔‘ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں اب سب کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔

سندھ کے وزیر داخلہ، ضیاء الحسن لنجار نے فوری تحقیقات کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا، ’ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچانے میں ملوث دہشت گردوں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا،‘ اور مجرموں کی شناخت کے لیے "مکمل تحقیقات‘ کا وعدہ کیا۔

شام تک ایک مسلح علیحدگی پسند تنظیم، بلوچ رپبلکن گارڈز (بی آر جی) نے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

ایک بیان میں تنظیم نے کہا، ’ٹرین پر حملہ اس وقت کیا گیا جب قابض پاکستانی فوج کے اہلکار اس میں سفر کر رہے تھے۔ دھماکے کے نتیجے میں، کئی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے، اور ٹرین کی چھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔‘ فرسٹ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، تنظیم نے مزید کہا کہ ’اس طرح کی کارروائیاں بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیں گی۔‘

سب سے تباہ کن حملہ مارچ میں ہوا، جب بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے بولان کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں تقریباً 400 مسافروں پر مشتمل ٹرین کو اغوا کر لیا تھا۔

یہ تعطل 30 گھنٹے سے زیادہ جاری رہا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے ٹرین پر دھاوا بول دیا، جس میں 33 عسکریت پسند مارے گئے لیکن اس کارروائی میں 23 فوجی، تین ریلوے اہلکار اور پانچ مسافر بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اگست میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک آئی ای ڈی دھماکے سے چھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں، جس سے چار مسافر زخمی ہوئے۔ اس سے کچھ دن پہلے، کولپور کے قریب مسلح افراد نے ٹرین کے پائلٹ انجن پر فائرنگ کی۔ اس حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ اسی مہینے سبی ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک اور بم دھماکہ ہوا، جس سے ٹرین بال بال بچی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جون میں جیکب آباد، سندھ میں ریموٹ کنٹرول دھماکے سے چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ حملوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جولائی میں سکھر میں پٹری سے اترنے کے واقعے پر پہلے دھماکے کا شبہ ظاہر کیا گیا، بعد میں حکام نے تصدیق کی کہ یہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوا۔

جعفر ایکسپریس بلوچستان کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے کے لیے بہت اہم ہے اور اکثر فوجی اور ریلوے اہلکار اسے استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ عسکریت پسند گروپوں کا بار بار ہدف بنتی ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے بار بار ہونے والے حملوں کا الزام انڈیا پر عائد کیا۔

انہوں نے ڈان کو بتایا، ’جعفر ایکسپریس کو بار بار نشانہ بنانے والے دہشت گرد درحقیقت انڈیا کے پراکسی ہیں جو آپریشن بنیان المرصوص کے دوران اپنی شکست کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘ یہ مئی میں ہونے والے تنازعے کے دوران پاکستان کی طرف سے اپنے مخالف پڑوسی کو دیے گئے جواب کا واضح حوالہ تھا۔

پہلگام حملے کے بعد بھارت اور پاکستان ایک فوجی کشیدگی میں الجھ گئے تھے جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ عباسی نے مزید کہا، ’یہ بزدلانہ کارروائیاں پاکستان ریلویز کو اس ٹرین کو چلانے سے نہیں روک سکتیں۔‘

اگرچہ انڈیا نے حالیہ حملے پر پاکستان کے الزام کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، لیکن ماضی میں اس نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔

حنیف عباسی نے ’بہادر ڈرائیوروں، گارڈز اور دیگر عملے کے ارکان‘ کی تعریف کی جنہوں نے بار بار حملوں کے باوجود سروس پر کام جاری رکھا، اور مزید کہا: ’میں اپنے مسافروں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جو اس ٹرین پر سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بزدل دہشت گردوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستانی ایک بہادر قوم ہیں جو کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گی۔‘

ڈان کی رپورٹ کے مطابق، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے حملے کی مذمت کی اور پولیس سے فوری رپورٹ طلب کی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ زخمی مسافروں کو ’بہترین ممکنہ طبی امداد‘ فراہم کی جائے۔

جعفر ایکسپریس پاکستان کے سب سے غیر مستحکم راستے سے گزرتی ہے۔ صوبہ بلوچستان، جو ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے متصل ہے، بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچ رپبلکن گارڈز، اور بلوچ لبریشن فرنٹ جیسے مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت میں طویل عرصے سے جاری شورش کا مرکز رہا ہے۔

یہ گروہ پاکستان سے آزادی کے لیے لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسلام آباد پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے قدرتی گیس، معدنیات اور ساحلی وسائل کا استحصال کر رہا ہے جبکہ اس کے ڈیڑھ کروڑ باشندوں کو غربت میں چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہ صوبہ تجارت اور چین کے تعاون سے چلنے والی گہرے سمندر کی گوادر بندرگاہ کے لیے ضروری ہے اور بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم مرکز ہے جو مغربی چین کو بحیرہ عرب سے ملاتا ہے۔

بلوچ باغیوں کے لیے جعفر ایکسپریس خطے میں ریاست کی موجودگی اور رسائی کی علامت ہے۔ سکیورٹی اہلکار، سرکاری حکام اور تاجر اکثر کوئٹہ اور دیگر شہروں کے درمیان سفر کے لیے ٹرین کا استعمال کرتے ہیں، جو اسے ایک پرکشش ہدف بناتا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق، بی ایل اے، جو سب سے بڑی اور فعال علیحدگی پسند تنظیموں میں سے ایک ہے، نے دسمبر 2023 میں گیس پائپ لائنوں اور سکیورٹی قافلوں پر حملوں سے آگے بڑھ کر عوامی انفراسٹرکچر پر حملے شروع کر دیے ہیں، جو بظاہر پاکستان کے معاشی اور سٹریٹجک رابطوں کے منصوبوں میں خلل ڈالنے کی کوشش ہے۔

اس تنظیم کو، جسے مجید بریگیڈ بھی کہا جاتا ہے، امریکہ نے اس سال اگست میں ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، جس سے اس کی کارروائیوں کے لیے کسی بھی مالی یا مادی مدد پر پابندیاں سخت ہو گئیں۔

بلوچ رپبلکن گارڈز، جس نے منگل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی، باغی تنظیموں کے ایک ڈھیلے اتحاد کا حصہ ہے جسے بلوچ راجی آجوئی سنگر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ 2012 میں ایک بلوچ رہنما کے خاندان کے افراد کے قتل کے بعد تشکیل دی گئی تھی اور اس کے بعد سے سندھ اور بلوچستان میں درجنوں بم دھماکے کر چکی ہے، جس میں 2023 میں رحیم یار خان ضلع میں قدرتی گیس کی پائپ لائن پر حملہ بھی شامل ہے جس سے پنجاب کے کچھ حصوں کو سپلائی میں خلل پڑا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکن پاکستانی فوج پر صوبے میں وسیع پیمانے پر زیادتیوں کا الزام لگاتے ہیں، جن میں علیحدگی پسندوں سے ہمدردی رکھنے کے شبہ میں نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں شامل ہیں۔

اس سال اپریل کے شروع میں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے ’بلوچستان میں پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے ضرورت سے زیادہ اور نقصان دہ اثرات‘ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ’بین الاقوامی قانون کے مکمل احترام کا مطالبہ کیا۔‘

ماہرین نے کہا، ’ہم بلوچستان میں مسلح گروپوں سے لاحق سنگین خطرے کو تسلیم کرتے ہیں اور دہشت گردی کے متاثرین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔‘ ’دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے تمام اقدامات کو ہمیشہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔‘

پاکستان حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جبری گمشدگیوں کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے، اور اصرار کرتی ہے کہ بہت سے لاپتہ افراد علیحدگی پسند گروپوں میں شامل ہو گئے ہیں یا ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔

یہ شورش 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے لہروں کی صورت میں ابھری ہے، جس کی تازہ ترین بغاوت 2000 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی۔ جبکہ ابتدائی تحریکوں نے زیادہ خود مختاری اور وسائل پر کنٹرول کا مطالبہ کیا تھا، جدید بلوچ جدوجہد تیزی سے مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

بار بار حملوں کے باوجود، پاکستان ریلویز کا اصرار ہے کہ جعفر ایکسپریس چلتی رہے گی۔ جناب عباسی نے ڈان کو بتایا، ’ہم اس طرح کے حملوں سے کبھی نہیں ڈریں گے،‘ اور مزید کہا کہ ٹرین کے راستوں کی سکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے گا۔ ’ٹرین معمول کے مطابق چلتی رہے گی۔"

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان