آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے نئے دورانیے کے پہلے ٹیسٹ کا آغاز پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف اتوار (12 اکتوبر) سے لاہور میں کر رہا ہے۔
جنوبی افریقہ اس دورے میں دو ٹیسٹ کھیلے گا۔ دوسرا ٹیسٹ 20 اکتوبر سے راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان لاہور ٹیسٹ 31واں ٹیسٹ ہوگا۔ اس سے قبل 30 میچوں میں پاکستان نے چھ جبکہ جنوبی افریقہ نے 17 جیتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کا یہ چوتھا دورہ پاکستان ہے۔ اس سے قبل آخری دورہ 2021 میں ہوا تھا جب پاکستان نے بابر اعظم کی قیادت میں دونوں ٹیسٹ میچ جیت لیے تھے۔
قسمت کے دھنی شان مسعود
موجودہ حالات میں پاکستان نے بدترین کارکردگی کے باوجود شان مسعود کو ہی کپتان برقرار رکھا ہے۔ وہ پچھلے چار ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکام رہے اور ایک سنچری بھی نہیں بنا سکے۔ ان کی کپتانی میں پاکستان چار میں سے تین ٹیسٹ بھی ہار گیا۔
بعض ماہرین کے مطابق واجبی سے ٹیسٹ کیریئر کے حامل شان مسعود اگرچہ کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ میچ کے حق دار نہیں ہیں لیکن مملکت اسلامیہ پاکستان میں سفارش اور اقربا پروری کی بنیاد پر اکثر شعبوں میں نااہل براجمان ہیں۔
شان مسعود ایک سال قبل تک برطانوی کلب یارکشائر کی کپتانی کر رہے تھے۔ اسی بنیاد پر بورڈ کا موقف تھا کہ وہ چونکہ کاؤنٹی میں کپتان ہیں تو انہیں قومی ٹیم کا کپتان بھی مقرر کر دیا گیا، لیکن اس سال تو انہیں یارکشائر نے ٹیم سے ہی نکال دیا اور وہ لیسٹر شائر کی طرف سے کھیلے، جہاں وہ متاثر نہ کرسکے۔
اب وہ پھر کپتان ہیں اور شاید عاقب جاوید فارمولا انہیں بچالے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ 36 سالہ شان مسعود تو ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ سابق کرکٹر صہیب مقصود کے دعوے کے مطابق بورڈ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں 35 سال سے زائد عمر کے کھلاڑیوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اگرچہ بورڈ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن اگر ایسا ہے تو ایک ہی بورڈ لیکن دو متضاد فیصلے!!!
سیلیکشن اور کوچز پر تنقید
پاکستان ٹیم کے ’نامعلوم سیلیکٹرز‘ نے 40 سالہ آصف آفریدی کو شامل کیا ہے۔ یہ وہ عمر رسیدہ کھلاڑی ہے جو فکسنگ کے گھناؤنے جرم پر ایک سال معطل رہے۔ انہیں ٹیم میں شامل کرنے پر سخت تنقید ہو رہی ہے حالانکہ یہی سلیکشن کمیٹی فواد عالم کو عمر رسیدہ قرار دے کر باہر کرچکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوچز کی تقرری پر بھی بہت تنقید ہو رہی ہے۔ عبدالرحمٰن جن پر نشہ آور اشیا کے استعمال پر 2012 میں انگلش بورڈ پابندی لگا چکا ہے وہ بولنگ کوچ بن گئے ہیں۔ مشکوک سرگرمیوں کی وہ سے وہ بہت زیادہ خبروں میں رہے ہیں جبکہ معمولی سے کیریئر کے حامل عمران فرحت کو بیٹنگ کوچ مقرر کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مسلسل ناکامیوں کے حامل اظہر محمود ہیڈ کوچ بن گئے ہیں۔ شاید بورڈ کو ان کے علاوہ کوئی نظر نہیں آ رہا۔
کیا عاقب جاوید فارمولا چل پائے گا؟
انگلینڈ کے خلاف جہازی سائز پنکھے لگا کر گذشتہ سال ملتان کی سخت گرمی میں پچ کو مزید خشک بنایا گیا جس سے وہ کافی کھردری ہوگئی تھی۔ اس پچ پر نعمان علی اور ساجد خان نے انگلینڈ کو زیر کر لیا۔ یہ فارمولا اگرچہ دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا لیکن پی سی بی مطمئن تھا کہ سیریز جیت گئے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف بھی وہی منصوبہ ہے اور ایک ایسی پچ کی کوشش کی جا رہی ہے جو پہلے دن سے ہی سپنرز کی جنت بن جائے گی اور پاکستان ایک اور جیت رقم کردے گا، لیکن ضرورت سے زیادہ عقل مند عاقب جاوید شاید یہ بھول گئے کہ لاہور میں ملتان جیسی گرمی نہیں ہوتی اور پچ میں لنچ تک خاصی نمی رہتی ہے جو سپنرز کی دشمن ہوتی ہے۔
پھر راولپنڈی میں تو سپن پچ بنانا انتہائی دشوار ہے کیونکہ ہوا میں نمی سارا دن رہتی ہے اور گیند کھردری بھی نہیں ہو پاتی۔
دوسری طرف جنوبی افریقہ کی ٹیم انگلینڈ کے مقابلے میں سپن بولنگ کھیلنے میں زیادہ مہارت رکھتی ہے اور خود بھی کیشو مہاراج جیسے خطرناک سپنر سے لیس ہے۔ کپتان مارکرم بھی اچھے سپنر ہیں اس لیے سپن پچز پر برابری کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی مہاراج لاہور ٹیسٹ نہیں کھیل رہے ہیں۔
ویسے سپن پچ بنا کر جیت کو آسان بنانے والے اس بات سے آگاہ نہیں کہ وہ فاسٹ بولنگ کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں جو پاکستان کی اصل طاقت رہی ہے۔
پاکستان ٹیم کیا ہوگی؟
گذشتہ چھ ماہ سے مسلسل شکستوں سے دوچار پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے۔ ایشیا کپ کا فائنل کھیلنے کے باوجود مسلسل تین بار انڈیا سے شکست نے پاکستان کرکٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ بے تحاشا ڈومیسٹک میچوں کے باوجود پاکستان نے آخری پانچ سال میں ایک بھی اچھا کرکٹر پیدا نہیں کیا ہے۔ ٹیم کی حالت یہ ہے کہ مسلسل ناکام ہونے والے کھلاڑی قوم کا مستقبل کہے جا رہے ہیں حالانکہ کھلاڑی سات سات بار ٹیم سے نکالے گئے اور پھر واپس آگئے۔
لاہور ٹیسٹ میں امام الحق کی واپسی یقینی ہے جو عبداللہ شفیق کے ساتھ اوپننگ کریں گے۔ شان مسعود تیسرے اور بابر اعظم چوتھے نمبر پر بیٹنگ کریں گے۔ سعود شکیل پانچویں اور سلمان علی آغا چھٹے نمبر پر ہوں گے۔ وکٹ کیپر محمد رضوان مڈل آرڈر کے آخری مستند بلے باز ہوں گے۔
بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی واحد فاسٹ بولر ہوں گے جبکہ نعمان علی ساجد خان اور ابرار احمد سپنرز کا کردار ادا کریں گے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ پچ کو دیکھ کر ایک اور فاسٹ بولر کو شامل کرے۔
جنوبی افریقہ
مہمان ٹیم کی سب سے بڑی طاقت کپتان ایڈم مارکرم ہوں گے جن کی شاندار بیٹنگ نے جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ چیمپیئن بنایا تھا۔ ان کے ساتھ ٹونی ڈے زورزی، ٹرسٹن سٹبس اور ڈیوڈ بیڈنگھم نمایاں بلے باز ہیں۔ کوربن بش اور جانسن اور وائن مولڈر بھی بہ وقت ضرورت اچھی بیٹنگ کرسکتے ہیں۔
بولنگ میں سارا دارومدار کگیسو ربادا اور سپنر سائمن ہارمر پر ہوگا۔ سب سے دلچسپ شمولیت سینوران متھوسامی کی ہوگی۔ متھو سپن بولنگ آل راؤنڈر ہیں لہذا جنوبی افریقہ بھی دو سپنرز کے ساتھ میدان میں اترے گا۔
لاہور ٹیسٹ میں اگر پچ توقعات کے مطابق بن گئی تو شاید ٹیسٹ میچ چار دن بھی نہ چل سکے۔ پاکستانی سپنرز پچ کی مدد سے پروٹیز کو جلد زیر کرلیں گے، تاہم پاکستان کو بھی سنبھل کر بیٹنگ کرنا ہوگی۔