پاکستان فوج نے ہفتے کو ایک بیان میں بتایا کہ جمعے کی رات ڈیرہ اسماعیل خان کے پولیس ٹریننگ سکول پر حملے میں چھ پولیس اہلکار اور ایک شہری جان سے گیا جبکہ پانچ حملہ آور مارے گئے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق حملہ آوروں نے سکول کی بیرونی سکیورٹی میں دراندازی کی کوشش کی، تاہم ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں نے حملہ ناکام بنا دیا۔
بیان کے مطابق اس پر ’دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی سکول کے دروازے سے ٹکرا دی۔‘
بیان میں کہا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے مقابلہ کرتے ہوئے تین حملہ آوروں کو مار دیا جبکہ باقی دو کو ایک عمارت میں گھیر کر کلیئرنس آپریشن کے دوران مارا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے شدید تبادلے میں چھ پولیس اہلکار، جن میں تربیت حاصل کرنے والے اہلکار بھی شامل تھے، جان سے گئے جبکہ 12 پولیس اہلکار اور ایک شہری زخمی ہوا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ حملہ آوروں نے سکول کے احاطے میں موجود مسجد پر بھی حملہ کیا جس کے نتیجے میں مسجد کے امام جان سے گئے۔
پاکستان فوج کے مطابق علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے اورحملے کے تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
خیبرپختونخوا پولیس نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں بتایا کہ عسکریت پسندوں نے بارود سے بھرا ایک ٹرک پولیس ٹریننگ سکول کے گیٹ سے ٹکرا دیا، جس سے سکول کی دیوار گر گئی اور سکیورٹی پر مامور دو جوان دیوار کے نیچے آنے سے جان سے چلے گئے۔
’اس کے بعد مختلف یونیفارمز میں ملبوس دہشت گرد سکول کے اندر داخل ہوئے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کردی، جس پر سکیورٹی پر مامور ایک جوان نے بڑی بہادری سے دہشت گردوں پر فائرنگ کی۔‘
پولیس کے مطابق عسکریت پسندوں نے دستی بم سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں تیسرا اہلکار بھی جان سے گیا۔
بیان میں بتایا گیا کہ پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا اور اس دوران عسکریت پسند مسلسل گرینڈ پھینکتے رہے۔
تاہم پولیس اور دیگرسکیورٹی فورسز نے مشترکہ طور پر پانچ گھنٹے طویل آپریشن کے نتیجے میں چھ عسکریت پسندوں کو مار دیا۔
بیان کے مطابق ’دہشت گردوں کے قبضے سے خودکش جیکٹس، بارودی مواد، اسلحہ اور ایمونیشن برآمد کیا گیا۔‘
دوسری جانب ’آپریشن کے دوران ٹریننگ سینٹر میں موجود تمام زیر تربیت ریکروٹس کو بحفاظت محفوظ مقام پر منتقل کر کے ایک بڑے سانحے سے بچا لیا گیا۔‘
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ڈیرہ اسماعیل خان صاحبزادہ سجاد احمد کے مطابق ٹریننگ سکول میں ٹریننی اور اساتذہ و عملے سمیت 200 کے قریب افراد موجود تھے جنہیں ریسکیو کرلیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام افسران و جوانوں کے لیے خصوصی انعامات کا اعلان کیا۔
پولیس کے مطابق علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا ہے اور مزید سرچ اینڈ کلین آپریشن جاری ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پر پیغامات میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعے کے حملوں کی ’شدید مذمت‘ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ’دہشت گردوں کے ایسے بزدلانہ عمل ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے۔‘
ڈیرہ اسماعیل خان شدت پسندی کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شامل ہے، جس کی مختلف وجوہات میں سے ایک اس ضلعے کا محل وقوع ہے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان سے متصل ہونے کی وجہ سے یہاں شدت پسندی زیادہ ہے اور ماضی میں بھی یہاں بڑے حملے ہو چکے ہیں۔
رواں ہفتے درابن علاقے میں پاکستان فوج کے میجر سبطین حیدر ایک حملے میں جان سے چلے گئے تھے جبکہ جوابی کارروائی میں سات عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
اس سے قبل دسمبر 2023 میں درابن کے ایک فوجی کیمپ میں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں پولیس کے مطابق کم از کم 23 فوجی اہلکار جان سے چلے گئے تھے۔
اس حملے میں شدت پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی کیمپ سے ٹکرا دی تھی۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے گٹھ جوڑ‘ کو ’مکمل طور پر مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نیشل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ’دہشت گردی‘ میں اضافہ ہو رہا ہے۔