خبریں ’پروپیگنڈا‘، صرف پولن الرجی والے درخت کاٹے جا رہے ہیں: سی ڈی اے

چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کے مطابق اسلام آباد میں صرف وہی پیپر ملبری کے درخت کاٹ رہے ہیں جو عوامی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں اور ان کے بدلے میں ہر ایک درخت کے بدلے میں کم از کم تین نئے درخت لگائے جا رہے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے شہر میں درختوں کی کٹائی سے متعلق تمام خبروں اور ویڈیوز کو ’بے بنیاد پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف پولن الرجی کا سبب بننے والے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں بڑی تعداد میں درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں سبزہ ختم ہو رہا ہے۔

زمینی حقائق کا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ شہر میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں، نئے سیکٹرز بنائے جا رہے ہیں، سڑکوں کی توسیع کے منصوبے مکمل ہو رہے ہیں اور مختلف ترقیاتی پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ان منصوبوں کے نتیجے میں اسلام آباد کے سبزے میں نمایاں کمی ضرور آئی ہے۔

تاہم محمد علی رندھاوا نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی گرین بیلٹس، جنگلات اور قدرتی حسن کا تحفظ سی ڈی اے کی اولین ترجیح ہے اور شہر میں درختوں کی کٹائی سے متعلق تمام خبریں اور ویڈیوز ’بے بنیاد پروپیگنڈا‘ ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بغیر اجازت کسی کو بھی درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔

محمد علی رندھاوا کے مطابق: ’اگر کوئی شخص درخت کاٹتا ہے تو اس کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کروائی جاتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ سی ڈی اے کی اجازت کے بغیر درخت کاٹنا مکمل طور پر غیر قانونی عمل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ادارہ صرف پیپر ملبری (شہتوت) کے درخت کاٹ رہا ہے کیوں کہ ان درختوں کا پولن اسلام آباد میں الرجی اور سانس کی بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

’ہم صرف وہی پیپر ملبری کے درخت کاٹ رہے ہیں جو عوامی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں اور ان کے بدلے میں ہر ایک درخت کے بدلے میں کم از کم تین نئے درخت لگائے جا رہے ہیں۔‘

دوسری جانب قانونی ماہر آفتاب عالم اس صورت حال کو مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ سی ڈی اے کے کچھ قوانین پر عملدرآمد ہوتا نظر آتا ہے، مگر بڑھتی ہوئی آبادی نے اسلام آباد کے ماحول کو شدید متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’اسلام آباد جو کبھی آٹھ سے 10 لاکھ لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا، آج وہاں 25 سے 30 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس غیر متوازن آبادی نے نہ صرف درختوں کی تعداد آدھی کر دی ہے بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار بھی تیز کر دی ہے۔ مستقبل میں یہاں کلاؤڈ برسٹ اور شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔‘

انہوں نے سی ڈی اے کے موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اگر ملبری کے درخت نقصان دہ ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ درخت لگائے کس نے تھے اور کیوں لگائے گئے؟ اب جب یہ درخت 30 سال بعد تناور بن چکے ہیں تو انہیں کاٹ کر چھوٹے پودے لگانا کسی صورت متبادل نہیں ہو سکتا۔ ایک پودا کبھی ایک بڑے درخت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔‘

ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی خوبصورتی اور ماحولیاتی توازن کے لیے ضروری ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور سبز ماحول کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے، تاکہ دارالحکومت کی شناخت ’گرین سٹی‘ صرف ایک نعرہ بن کر نہ رہ جائے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات