اینڈریو ملکہ الزبتھ کے وقار کو بھی اپنے ساتھ ڈبو سکتے ہیں

اگر برطانوی شاہی خاندان نے شہزادہ اینڈریو کی غلطیوں کو درست کرنے میں تاخیر کی تو عوامی رائے خود فیصلہ سنا دے گی۔

امریکی عدالت کی جانب سے اگست 2021 میں جاری  کی گئی تصویر جس کی تاریخ معلوم نہیں۔ اس تصویر میں شہزادہ اینڈریو، ورجنیا جوفرے اور عقب میں گزلین میکسویل کو دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی، یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ)

برطانوی شاہی خاندان کے شہزادہ اینڈریو سے جڑا سکینڈل ہر ممکن سمت میں اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے۔ اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس معاملے نے شاہی خاندان کے ادارے کو وجودی بحران میں مبتلا کر دیا ہے؟

کیا شاہ چارلس اور ولی عہد شہزادہ ولیم نے اس صورت حال کو سنبھالنے کے لیے اقدامات کیے ہیں؟ اور کیا آئندہ دنوں یا ہفتوں میں جیفری ایپسٹین سے متعلق مزید شرمناک ای میلز منظر عام پر آنے سے معاملہ مزید بگڑنے والا ہے؟

سابق ڈیوک آف یارک شہزادہ اینڈریو کی حرکتوں کے اثرات پر جاری قیاس آرائیوں کے دوران اور ان کے اپنی مرضی سے شاہی خطابات چھوڑ دینے کے بعد، جب وہ مکمل طور پر ناپسندیدہ شخصیت بن چکے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کی مرحوم والدہ اب بھی ملکہ ہوتیں تو اب صورت حال کیا رخ اختیار کرتی؟

2022 میں ملکہ الزبتھ دوم دنیا سے چل بسی تھیں، جنہیں نہ صرف ملک کے سب سے عظیم حکمران کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے بلکہ ایک ایسی مدبر شخصیت کے طور پر بھی جنہیں شاہی خاندان کو چلانے کی غیر معمولی سمجھ بوجھ حاصل تھی۔

اکثر لوگ شہزادے ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن کی جانب سے شاہی خاندان پر لگائے گئے نسل پرستی کے الزامات کے جواب میں ملکہ کے پر وقار مگر پراثر جملے ‘recollections may vary’ کو یاد کرتے ہیں، جس نے عوامی ہمدردی کا رخ کیلی فورنیا میں مقیم جوڑے کے خلاف موڑ دیا۔

ملکہ نے ایک ایسے شاہی ادارے کی ساکھ بحال کی، جس نے ان کے دور میں بھی شہزادی مارگریٹ اور شہزادی ڈیانا جیسے تنازعات کا سامنا کیا مگر ان کی رہنمائی میں شاہی خاندان ہمیشہ سکینڈلز سے بالاتر دکھائی دیا۔

تاہم جب بات شہزادہ اینڈریو کی ہو، جو عام طور پر آنجہانی ملکہ کے من پسند صاحبزادے سمجھے جاتے تھے، تو وہاں الزبتھ دوم کا فہم اور فیصلہ سازی کی قوت جیسے ساتھ چھوڑ گئی۔

فاک لینڈ جنگ میں حصہ لینے والے شہزادہ اینڈریو اپنے والد کی طرح ایک فوجی ہیرو کے طور پر جانے جاتے تھے جن کی اخباری شہرت کو شاہی خاندان میں عیب کے بجائے فخر سمجھا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ واضح ہو گیا کہ ان کے طرز عمل کے پیچھے سنگین پہلو چھپے ہوئے تھے۔

ملکہ کو کافی پہلے سے اپنے زیادہ عملی، فطرت پسند بیٹے اینڈریو سے خاص لگاؤ تھا، بجائے ان کے زیادہ سنجیدہ اور تعلیم یافتہ بیٹوں چارلس اور ایڈورڈ کے (جبکہ ان کی صاحبزادی شہزادی این، جو کئی لحاظ سے سب سے بہتر ثابت ہوئیں مگر ایک خاتون ہونے کے باعث اتنی سنجیدگی سے نہیں لی گئیں)۔

ایک پسندیدہ بیٹے سے محبت کرنا ایک بات ہے مگر ان کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو سہارا دینا دوسری بات۔

ملکہ کی زندگی ہی میں ان کے دوسرے بیٹے کے رویے سے متعلق کہانیاں سامنے آنے لگیں، خاص طور پر 2019  کے بی بی سی نیوزنائٹ انٹرویو کے بعد، جس میں وہ اپنے دفاع کی کوشش میں اپنی شہرت کے حوالے سے الٹا مزید نقصان کر بیٹھے۔

عام خیال ہے کہ اس انٹرویو کی اجازت بھی خود ملکہ نے اس امید پر دی تھی کہ شاید اینڈریو اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔

مگر اس کے برعکس، یہ انٹرویو ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ اگرچہ وہ آج تک الزامات کی تردید کرتے ہیں، تاہم شاہی فرائض سے ان کی دستبرداری غالباً ملکہ کی مرضی سے ہی ہوئی۔

مزید سنگین الزام یہ ہے کہ جب ان پر دائر سول مقدمہ شاہی خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث بننے لگا تو ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے ذاتی فنڈ سے بیٹے کے لیے ورجینیا جیفری کو 12 ملین پاؤنڈ کی بھاری رقم دے کر عدالت سے باہر تصفیہ کروایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ رقم نہ صرف غیر معمولی تھی بلکہ ایک ایسی خاموشی کی قیمت جسے ترقی یافتہ برطانیہ کے بجائے کسی غیر مستحکم ملک سے جوڑا جا سکتا ہے۔

یہ ادائیگی یقینی طور پر شاہی منظوری سے ہوئی اور اس وقت عوام نے ملکہ پر ان کے رتبے کی وجہ سے کوئی خاص تنقید نہیں کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس فیصلے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور اب یہ فیصلہ غلطی محسوس ہوتا ہے۔

مزید برآں جیفری کی یادداشتوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہزادے اینڈریو نے 2022  میں مقدمے کے تصفیے کے وقت ایک سال کی خاموشی (گَیگ آرڈر) کی شرط عائد کی تھی تاکہ ملکہ الزبتھ دوم کے پلاٹینم جوبلی پر منفی اثر نہ پڑے۔

چاہے اس میں کتنی بھی سچائی ہو، حقیقت یہ ہے کہ اب ملکہ کی میراث بھی اس تنازع میں کھنچتی جا رہی ہے۔

یقیناً الزبتھ دوم اب انسانی دائرہ اختیار سے بہت دور ہیں اور غالب امکان ہے کہ وہ اپنے محبوب بیٹے کو اپنی موت تک بے گناہ سمجھتی رہیں۔
اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو شاید اب بھی یہی یقین رکھتیں لیکن ان پر ہونے والی شدید عوامی تنقید، حتیٰ کہ ان کے اپنے خاندان کی طرف سے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک بار پھر یاد دلایا جائے کہ ’یادداشتیں واقعی مختلف ہو سکتی ہیں۔‘

بہرکیف، یہ سکینڈل شاہی خاندان کے لیے وجودی بحران کی سی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے خطرے کا شاید اب انہیں صحیح اندازہ ہو رہا ہے۔

اگر انہوں نے اینڈریو کی غلطیوں کا تدارک کرنے میں سستی یا نااہلی دکھائی، تو عوامی رائے کا سیلاب خود فیصلہ سنا دے گا اور اس کے بعد کسی کے ہاتھ میں کچھ باقی نہیں رہے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر