مودی کو کھلا خط لکھنے والوں کو 185 شخصیات کی حمایت حاصل

بھارت میں ثقافتی برداری کی 185 نامورشخصیات نے شہریوں کے ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے خلاف 49 ممتاز شخصیات کے خلاف مقدمے کی مذمت بھی کی۔

(اے ایف پی)

بھارت میں ثقافتی برداری کی 185 نامورشخصیات نے شہریوں کے ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے خلاف 49 ممتاز شخصیات کے وزیر اعظم نریندرمودی کو لکھے گئے ایک کھلے خط کی توثیق کی ہے۔

ان 185 افراد میں اداکار نصیرالدین شاہ، ڈانسر ملیکہ سرابھائی،مصنف اشوک واجپائی، نین تارا سہگل، ششی دیش پانڈے، مؤرخ رومیلا تھاپڑ، گلوکار ٹیم ایم کرشنا اور فن کار ویون سندرم شامل ہیں۔

انہوں نے خط لکھنے والی ممتاز شخصیات کے خلاف ریاست بہار کے شہر مظفر پورمیں’بغاوت‘ اور دوسرے الزامات کے تحت مقدمے کے اندراج کی بھی مذمت کی۔

ان 185 شخصیات کا مکمل بیان کچھ یوں ہے:

ثقافتی برداری سے تعلق رکھنے والے ہمارے 49 ساتھیوں کے خلاف صرف اس وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی کہ انہوں نے سول سوسائٹی کے معزز رکن ہو نےکی ذمہ داری پوری کی۔

نیوز کلک کے مطابق انہوں نے وزیراعظم کو خط لکھ کر ملک میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ کیا اس عمل کو بغاوت کہا جا سکتا ہے؟یا کیا یہ عدالتوں کو غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے ہراساں کرنے کی کوشش ہے تاکہ شہریوں کی آواز کو خاموش کیا جا سکے؟

ہم سب بھارتی ثقافتی برداری کا حصہ ہیں اور باضمیر شہری ہونے کے ناتے ہم اس ہراسانی کی مذمت کرتے ہیں۔

 ہم مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہیں:ہم اپنے ساتھیوں کی طرف سے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط کے ہر لفظ کی توثیق کرتے ہیں۔ اس لیے ایک بار پھر ہم ان کا خط یہاں شیئر کر رہے ہیں اور ہماری ثقافتی،تعلیمی اورقانونی بردریوں سے اپیل ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔

اس لیے ہم میں سے مزید لوگ ہرروز آواز اٹھائیں گے۔ ہجوم کے تشدد کے خلاف، لوگوں کی آواز دبانے کے خلاف اور شہریوں کو ہراساں کرنے کے لیے عدالتوں کے غلط استعمال کے خلاف۔

49 ممتاز بھارتی شخصیات کی جانب سے 23 جولائی 2019 کو وزیراعظم نریندر مودی کو لکھے گئے کھلے خط کا متن۔

خط لکھنے والوں میں اپاما سین،ادورگوپال کرشنن،شیام بینیگال،انوراگ کشیپ،اشیش ناندے اورراماچندرگوہا شامل ہیں۔

ہم امن سے محبت اور بھارتی شہری ہونے پر فخرکرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں حال ہی میں اپنے پیارے وطن میں ہونے والے افسوس ناک واقعات کی تعداد پر گہری تشویش ہے۔

ہمارے آئین میں کہا گیا ہے کہ بھارت ایک سیکولرسوشلسٹ جمہوری ملک ہے جہاں ہر مذہب،نسل،جنس اور ذات کے لوگ برابر ہیں۔ اس لیے آئین کے تحت تمام شہریوں کو چاہے وہ کوئی خاتون ہو یا مرد ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

ہم یہ کہتے ہیں:

مسلمانوں،دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر تشدد فوری اور لازمی طور پر بند کیا جائے۔ ہمیں این سی آر بی(نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو) کی رپورٹوں سےیہ جان کر سخت صدمہ ہوا کہ 2016 میں دلتوں پر ظلم کے 840 واقعات ہوئے اور اس ضمن میں سزا دیے جانے کی شرح میں قطعی کمی آئی ہے۔

مزید براں یکم جنوری 2009 سے 29 اکتوبر 2018 کے درمیان مذہبی شناخت کی بنیاد پرنفرت کے 254 جرائم رپورٹ کیے گئے۔

 ان واقعات میں 91 افراد کو قتل اور 574 کو زخمی کیا گیا(FactChecker.in ڈیٹا بیس 30 اکتوبر 2018)

مذہب کی بنیاد پر نفرت کی وجہ سے ہونے والے جرائم پر نظر رکھنے والی تنظیم کے ریکارڈ کے مطابق مسلمان(بھارت کی آبادی کا 14 فیصد)62 فیصد واقعات میں متاثرہوئے۔

 مسیحی(بھارتی آبادی کا دو فیصد)14 فیصد واقعات میں نشانہ بنے۔ مئی 2014 کے بعد ان حملوں میں 90 فیصد کو اس وقت رپورٹ کیا گیا جب حکومت نے قومی سطح پر اختیارات سنبھالے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ مسٹر وزیراعظم آپ نے شہریوں پر تشدد کے واقعات پر پارلیمنٹ میں تنقید کی لیکن یہ کافی نہیں۔ ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف عملی طور پر کیا اقدامات کیے گئے؟

ہمیں پورا احساس ہے کہ اس طرح کے جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دیا جانا چاہیے اور فوری اوریقینی طور پر مثالی سزا دی جانی چاہیے۔

 اگر قتل کے جرم میں پیرول پر رہائی کے بغیر عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے تو ہجوم کی طرف سے تشدد کے جرم میں کیوں نہیں؟ جو زیادہ سنگین جرم ہے۔ ہمارے ملک میں کسی کو خوف کی حالت میں زندہ نہیں رہنا چاہیے۔

یہ حقیقت افسوس ناک ہے کہ آج ’جے سری رام‘ایک اشتعال انگیز جنگی نعرہ بن گیا ہے جس کی وجہ سے امن و امان کے اور دوسرے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہجوم کی جانب سے تشدد کے بہت سے واقعات اسی نعرے کی آڑ میں ہوتے ہیں۔ مذہب کے نام پر اس قدر تشدد دیکھنا بے حد تکلیف دہ ہے۔ یہ پرانا زمانہ نہیں۔

ہندوؤں کی اکثریت والے ملک میں رام کا نام بہت سے لوگوں کے لیے مقدس ہے۔ اس ملک کی اعلیٰ ترین اتھارٹی کی حیثیت سے آپ کو رام کے نام کی اس انداز میں بے حرمتی روکنی ہوگی۔

اختلاف رائے کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔ لوگوں پر’ملک مخالف‘یا ’شہری علاقوں کے نکسل باغی‘کا لیبل نہ لگایا جائے اور نہ ہی حکومت سے اختلاف کی وجہ سے انہیں قید میں ڈالا جائے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اختلاف اس آرٹیکل کا لازمی جزو ہے۔

حکمران جماعت پر تنقید کا مطلب ملک پرتنقید نہیں۔ حکمران جماعت ملک نہیں بلکہ ملک کی سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایک جماعت ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت مخالف مؤقف کو ملک مخالف جذبات کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 ایک کھلا ماحول جہاں اختلاف رائے کو کچلا نہ جائے صرف اس سے قوم مضبوط تر ہوتی ہے۔

ہمیں امید ہے ہماری تجاویز کو ان کی حقیقی معنوں میں لیا جائے گا۔ ایسے بھارتی شہریوں کی تجاویز جو ملک کے مستقبل کے بارے میں بجا طور پر فکر مند ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا