عالمی بینک نے اکتوبر 2025 کے لیے پاکستان کی معاشی صورتِ حال پر گذشتہ روز ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مالی سال 2025 کے دوران حاصل کردہ معاشی استحکام کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن خبردار کیا گیا ہے کہ حالیہ تباہ کن سیلاب نے آئندہ سال کے اقتصادی منظرنامے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران ملک کو ریکارڈ مقدار میں ترسیلات زر حاصل ہوئیں، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، افراطِ زر میں تیزی سے کمی آئی، تاہم طویل مدتی خوشحالی کے لیے ملک کو اپنی برآمدی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے سخت ڈھانچہ جاتی اصلاحات جاری رکھنی ہوں گی۔
سیلاب کے بعد معاشی دباؤ
رپورٹ کے مطابق سپلائی چین میں سیلاب سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں اور خوراک کی فراہمی کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث مالی سال 2026 میں مہنگائی کی شرح 7.2 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ اضافہ استحکام کی سابقہ کامیابیوں کو الٹ سکتا ہے، جب مہنگائی مالی سال 2025 میں تیزی سے کم ہو کر 4.5 فیصد ہو گئی ہے جو پچھلے سال 23.4 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
اس دوران ترقی کی رفتار بھی سست رہے گی۔ مالی سال 2026 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.0 فیصد پر رہنے کا تخمینہ ہے، جس کی بڑی وجہ زرعی پیداوار میں خلل ہے۔ کپاس، چاول، گنا اور مکئی جیسی اہم فصلوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے دیہی آمدنی اور صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت میں کمی کی رفتار بھی سست ہونے کی توقع ہے۔ سیلاب سے متاثرہ غریب اور کمزور دیہی گھرانے جو زرعی اثاثوں کے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے لیے غربت کی شرح مالی سال 2026 میں معمولی کمی کے بعد 21.5 فیصد رہے گی۔ سیلاب سے متعلق امدادی اور تعمیر نو کی ضروریات کے سبب مالیاتی خسارہ بھی مالیاتی سال 2026 میں 5.4 فیصد کی بلند سطح پر رہ سکتا ہے۔
استحکام کی قابل ذکر کامیابیاں
عالمی بینک نے مالی سال 2025 میں پاکستان کی جانب سے حاصل کیے گئے ’قابل ذکر معاشی استحکام‘ کو سراہا ہے:
- تاریخی مالیاتی سرپلس: مضبوط ریونیو کی وصولی کے باعث پرائمری مالیاتی سرپلس (Primary Fiscal Surplus) 2.4 فیصد کی تاریخی سطح پر پہنچ گیا۔
- کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس: ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے اور مستحکم شرح مبادلہ کے نتیجے میں ملک نے 0.5 فیصد جی ڈی پی کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حاصل کیا، جو دو دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔
- غربت میں تیزی سے کمی: بڑھتی ہوئی تعمیرات اور لاجسٹکس سیکٹر اور خوراک کی مہنگائی میں تیزی سے کمی کی وجہ سے غربت کی شرح مالی سال 2025 میں25.3 فیصد سے کم ہو کر 22.2 فیصد پر آ گئی۔
برآمدات پر مبنی ترقی کا راستہ
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو بار بار آنے والے ’بوم بسٹ سائیکل‘ سے نکلنے کے لیے برآمدات پر مبنی معیشت کی طرف جانا ضروری ہے۔
60 ارب ڈالر کا فرق: اندازے کے مطابق پاکستان میں برآمدات کی 60 ارب ڈالر کے قریب غیر استعمال شدہ صلاحیت موجود ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے ملک کو اپنی برآمدی جی ڈی پی کی حصہ داری کو دوگنا کرنا ہو گا۔
تاریخی ٹیرف اصلاحات: حکومت نے مالی سال 2026 کے بجٹ میں پانچ سالہ نیشنل ٹیرف منصوبہ منظور کیا ہے تاکہ سادہ اوسط ٹیرف کو 2030 تک 20.2 فیصد سے کم کر کے 9.7 فیصد تک لایا جا سکے۔ ان اصلاحات کا مقصد برآمد کنندگان کے لیے ان پٹ لاگت کو کم کرنا ہے۔
بنیادی چیلنجز: تاہم برآمد کنندگان کے لیے بجلی کی زیادہ قیمتیں اور حکومت کی جانب سے قرض لینے کی وجہ سے نجی شعبے کے لیے محدود مالیاتی رسائی (Crowding Out) اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ عالمی بینک نے ایکسپورٹ امپورٹ (EXIM) بینک کو مکمل طور پر فعال کرنے پر زور دیا ہے۔