پشاور میں بدھ کو ہونے والے خیبر پختونخوا امن جرگے نے صوبے میں جاری دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے داخلی سلامتی کی قیادت پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
صوبائی اسمبلی میں ہونے والے جرگے میں مختلف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، وکلا اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔
یہ جرگہ صوبائی حکومت کی میزبانی میں منعقد ہوا جس میں صوبے کی سکیورٹی صورت حال پر غور اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی قائدین مدعو کیا گیا تھا۔
جرگے کے اختتام پر جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لے کر قانون کے مطابق اقدامات کیے جائیں تاکہ صوبے (بشمول ضم شدہ اضلاع) میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امن و امان سے متعلق قوانین پر مبنی متفقہ قراردادیں جو صوبائی اسمبلی میں پاس کی گئی ہیں، ان پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔
جرگے نے واضح کیا کہ پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ داخلی سلامتی کی قیادت کریں گے اور ضرورت کے مطابق آئینی طور پر دیگر اداروں سے معاونت طلب کر سکتے ہیں۔
صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ موجودہ مخدوش صورت حال میں پولیس اور سی ٹی ڈی کو خصوصی مالی معاونت فراہم کرے۔
اعلامیے میں غیر قانونی محصولیات، بھتہ خوری اور تاوان کے خاتمے کے لیے مربوط پالیسی کی سفارش کی گئی تاکہ دہشت گردوں کے مالی ذرائع منقطع کیے جا سکیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ خیبر پختونخوا، بالخصوص شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیر قانونی کان کنی کا خاتمہ کیا جائے جبکہ صوبائی اسمبلی کو سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں اور ان کی قانونی بنیادوں کے بارے میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔
اعلامیے میں تجویز دی گئی کہ صوبائی سطح پر امن فورمز قائم کی جائیں جن میں غیر سرکاری اراکین کی اکثریت ہو، جن میں منتخب نمائندے، سیاسی جماعتیں، اقلیتیں اور خواتین شامل ہوں تاکہ وہ اسمبلی کو وقتاً فوقتاً باخبر رکھیں۔
اسی طرح شہری سطح پر پولیس، کنٹونمنٹ اور بلدیاتی اداروں کے مابین ہم آہنگی کے لیے سٹی سیلز قائم کیے جائیں جو چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے متعین وقت میں منصوبے تیار کریں۔
جرگے نے مقامی حکومتوں کے استحکام اور مالی تحفظ کے لیے آئینی ترمیم کی سفارش کی گئی اور کہا گیا کہ پروونشل فنانس کمیشن کو نیشنل فنانس کمیشن کے ساتھ منسلک کیا جائے۔
اعلامیے میں وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ نیٹ ہائیڈل پرافٹ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی آن آئل، واٹر شیئر، پروسیڈز آف نیچرل گیس (آرٹیکل 158)، ضم شدہ اضلاع کا این ایف سی میں حصہ، 11ویں این ایف سی پر عمل درآمد، گلیات ڈرنکنگ واٹر اور آرٹیکل 151 کے تحت بین الصوبائی تجارت جیسے صوبے کے آئینی مالی حقوق پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ خیبر پختونخوا کو گندم کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی اور حکومت مشترکہ طور پر صوبائی ایکشن پلان مرتب کریں جب کہ پاک۔افغان تجارتی گزرگاہوں کو ہر قسم کی تجارت کے لیے کھول دیا جائے۔
جرگے نے وفاق سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاک افغان خارجی پالیسی کی تشکیل میں صوبائی حکومت سے مشاورت کی جائے اور سفارت کاری کو ترجیح دی جائے۔
آخر میں امن جرگے نے زور دیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان تناؤ کو کم کیا جائے اور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آئینی مدت کے مطابق بلایا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جرگے کے تجاویز کے حوالے سے صوبائی حکومت کے مشیر اطلاعات شفیع جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جرگے کی تجاویز وفاقی حکومت اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ بھی شیئر کیے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا خود جرگے کا اعلامیہ سکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر کریں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی اس جرگے کی تجاویز کو تسلیم کریں۔
شفیع اللہ جان نے بتایا: ‘جرگے میں کوئی سیاسی پوانٹ سکورنگ نہیں بلکہ وفاق میں شامل سیاسی جماعتیں بھی موجود تھیں اور تمام نمائندگان سے تجاویز کے کر اعلامیہ تیار کیا گیا جو ایک احسن اقدام ہے۔‘
جرگے میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرنے والے جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق نے بتایا وفاقی حکومت میں شامل اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان جرگے میں آئے تھے اور یہ ایک طاقت ور اجلاس تھا۔
تاہم سراج الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان تجاویز پر عمل درامد کرنے کے لیے جب تک صوبائی، وفاقی اور اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر نہ ہوں تو یہ ساری باتیں پانی پر لکیریں کھینچنے کے مترادف ہے۔
سراج الحق نے بتایا: ’ان تجاویز کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مستقل کمیٹی بننی چاہیے جو مرکزی حکومت سے بات کریں اور صوبائی حکومت کی فیصلوں پر بھی نظر رکھیں۔‘
ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنسز اور جرگے بلائے تھے جن میں سب آخری کوشش گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے رواں سال جون میں جرگہ منعقد کرکے کی تھی۔
تاہم اس جرگے میں صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے شرکت نہیں کی تھی۔