ڈاکٹر عارفہ سید رخصت ہوئیں

ڈاکٹر صاحبہ سے میرا پہلا تعارف خوشگوار نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو سب لڑکیاں مجھے گھیر گھار کے ان کے دفتر میں بھیج دیا کرتیں کہ تم بات کرو۔

ڈاکٹر عارفہ سید یکم مارچ، 2020 کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے (انڈپینڈنٹ اردو)

ستمبر کے آخری دن تھے، دھوپ گرم تھی مگر سائے ہلکے سے خنک ہو چکے تھے۔ گلبرگ ڈگری کالج لاہور کی کیمسٹری لیب میں رنگ برنگے کیمیکلز کی بو پھیلی ہوئی تھی اور لڑکیاں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔

’آ گئیں، ادھر ہی آ رہی ہیں، اللہ کرے زلزلہ آ جائے اور ان پہ چھت گر جائے، لیب تک آ ہی نہ سکیں۔‘

زلزلہ تب نہیں آیا۔ زلزلہ تب آیا جب ڈاکٹر عارفہ سید لیب میں پہنچیں اور گھورتی آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ طنز آمیز گفتگو شروع کی۔ بھگو بھگو کر اتنے جوتے مارے کہ شرمندگی سے بس نہیں چل رہا تھا زمین پھٹے اور اس میں سما جائیں۔

مدعا غالباً یہ تھا کہ ایف ایس سی کی لڑکیاں، کینٹین سے دہی بھلے وغیرہ لے کر لیب میں آ جاتی تھیں اور جھوٹی پلیٹیں واپس نہیں لوٹاتی تھیں۔

ڈاکٹر صاحبہ سے یہ میرا پہلا تعارف تھا اور ذرا بھی خوشگوار نہیں تھا۔ اس کے باوجود جب کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، سب لڑکیاں مجھے گھیر گھار کے ان کے دفتر میں بھیج دیا کرتیں کہ تم بات کرو تمہاری اردو بہت صاف ہے۔

جانے اردو اچھی تھی یا گردن پتلی تھی، شیر کی کچھار میں مجھے ہی پھینکا جاتا تھا۔ وہ میری بات سنتی تھیں، طنز کرتی تھیں، جملے بنا بنا کے شرمندہ کرتی تھیں مگر آخر کار کرتی وہی تھیں جو میں کہتی تھی۔ 

میری اس پراسرار طاقت سے کالج کی سب لڑکیاں بہت مرعوب رہا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے تقریری مقابلوں اور کالج کے پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی شاید مجھے اسی لیے دے دی جاتی تھی کہ کوئی اور لڑکی ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتی تھی۔

کالج کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کھو گئیں۔ زندگی کہیں سے کہیں گئی اور ایک روز جب میں اپنے بیٹے کو گٹار سکھلانے فیض گھر لے کر گئی تو ڈاکٹر صاحبہ سے ملاقات ہو گئی۔ وہ وہاں فیض کی شاعری پہ لیکچر دیتی تھیں۔

اس کے بعد کتنی بار ملاقات ہوئی یاد نہیں اور یہ واقعات ان کو مسلسل ادبی میلوں میں بلائے جانے سے پہلے کے ہیں۔ میرا پہلا ناول پڑھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے بڑی رازداری سے پوچھا ’یہ پیٹلا آرٹسٹ کون تھا تمہارے ناول میں۔ میں نے بڑا سوچا، مگر پہچان نہیں سکی۔‘

ظاہر ہے میں نے انہیں کیا کسی کو بھی کبھی بھی نہیں بتایا کہ میرے ناول کا وہ پیٹلا آرٹسٹ کون تھا۔ ہم نے مل کے رومی اور فیض کی شاعری پہ بھی باتیں کیں۔ شادیوں پہ بھی ان سے ملاقات ہو جاتی تھی ایک شہر کا رہنا جو ٹھہرا۔

پھر ڈاکٹر صاحبہ کو ادبی میلوں میں ایک سیلیبرٹی کا مقام مل گیا، سوشل میڈیا پہ ان کے کلپ وائرل ہونے لگے۔ شہرت کے سائیڈ افیکٹس انہیں بھی بھگتنے پڑے۔ جس کے منہ میں جو آیا، کہا گیا۔

اب میری ان سے ملاقات ہوتی تھی تو میں سلام کے بعد کان دبا کے ادھر ادھر نکل جاتی کیونکہ اب ان کے گرد سیلفیاں لینے والوں کا جمگھٹا ہوتا تھا۔ عمر کے جس حصے میں ڈاکٹر صاحبہ کو شہرت ملی، ہم جیسے تو اس عمر تک پہنچ بھی جائیں تو بڑی بات ہے۔

ان گنہگار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ مائرہ خان کے سیشن سے زیادہ نہیں تو اس کے برابر کا رش عارفہ سید صاحبہ کے سیشن میں بھی ہوتا تھا۔

کوئی بات تو تھی ان کے بولنے میں۔ لہجہ تھا، زبان تھی، الفاظ کا انتخاب تھا، جو بھی تھا کمال تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہماری آخری ملاقات بھی عجیب دوڑتے بھاگتے ہوئی شاید دو ڈھائی ماہ پہلے پلاننگ کمیشن کی کوئی میٹنگ تھی۔ 

گلبرگ کی ایک پرانی سی کوٹھی میں، میں اور آپا بڑے عرصے کے بعد ملے۔

مسکراہٹ وہی تھی، گالوں کی ہڈیاں اسی طرح ابھری ہوئیں، آنکھوں میں وہی شکار کر لینے والی چمک جس سے لوگ بلاوجہ گھبرا جاتے تھے۔

باریک باریک ہونٹ اسی دائمی طنزیہ مسکراہٹ میں کھنچے ہوئے، سفید بالوں کا بادل اسی طرح پیشانی پہ جھکا ہوا، لہجے میں وہی کڑک مگر آواز میں ذرا سی لرزش تھی، بڑھاپا بھی میری طرح منہ چڑھا تھا اپنی منوا ہی لی تھی اس نے۔

پہلی بار مجھے لگا کہ ڈاکٹر صاحبہ بھی بوڑھی ہو گئی ہیں اور وقت کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتا۔ جب وہ بولتی تھیں تو ہم سب احتراماً خاموش ہو کر ان کی سنتے تھے اور اتفاق نہ ہونے پہ بھی اثبات میں سر ہلا دیتے تھے۔

شاید سب ہی کو نظر آرہا تھا کہ چراغ بجھنے والا ہے، اتنی جلدی بجھے گا، اندازہ نہیں تھا۔ کسی نے کہا بھی کہ ایک تصویر بنوا لو ان کے ساتھ۔ میں ٹال کے نکل آئی بھلا میں ڈاکٹر عارفہ کے ساتھ تصویر بنواتی؟

ڈاکٹر عارفہ سید کے جانے کی خبر ملی تو دھیان آیا میرے پاس تو ایک بھی تصویر نہیں جس میں وہ اور میں اکٹھے ہوں۔ تیس، پینتیس سال کے اس ساتھ میں ایک بھی تصویر نہیں؟

ڈاکٹر صاحبہ چلی گئیں۔ سب ہی نے جانا ہے۔ جن لڑکیوں کو وہ دھمکا دھمکا کے قابو کیا کرتی تھیں وہ بھی بوڑھی ہو گئیں، دادیاں نانیاں بن گئیں۔

وقت گزر گیا، جانے والے چلے گئے پیچھے یہ رہ گیا کہ یاد کے دو لفظ ہی لکھ دیے جائیں۔ قرض تو نہیں تھا مگر لکھنا ہی تھا۔ انگریزی میں ایسے موقعوں پہ جو کہا جاتا ہے شاید اس کا ترجمہ ممکن نہیں۔

.Till we meet again

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ