مذاکرات اور دہشت گرد حملے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے: محسن نقوی

پاکستان کے وزیر داخلہ نے قائم مقام امریکی سفیر نٹالی بیکر سے ملاقات میں افغانستان کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ پاکستان ’دہشت گردی کے سائے میں مذاکرات آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی سے اسلام آباد میں 18 نومبر 2025 کو ملاقات کے دوران پاکستان میں امریکہ کی قائم مقام سفیر نٹالی بیکر گفتگو کرتے ہوئے (پی آئی ڈی)

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے منگل کو اسلام آباد میں قائم مقام امریکی سفیر نٹالی بیکر سے ملاقات میں افغانستان کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ پاکستان ’دہشت گردی کے سائے میں مذاکرات آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘

انہوں نے یہ بات قائم مقام امریکی سفیر کو 11 نومبر کو دارالحکومت کی ضلعی کچہری کے باہر ہونے والے خودکش حملے اور انسدادِ دہشت گردی کی جاری کارروائیوں پر تفصیلی بریفنگ کے دوران کہی۔

اسلام آباد کے ضلعی عدالت کمپلیکس کے داخلی دروازے پر ہونے والے دھماکے میں 12 افراد جان سے گئے اور لگ بھگ تین درجن زخمی ہوئے تھے۔ تقریباً تین سال بعد یہ وفاقی دارالحکومت میں پہلا بڑا خودکش حملہ تھا اور ملک بھر میں بڑھتے ہوئے عسکریت پسند حملوں کی تازہ لہر سے جڑا ہوا ہے۔

حکام کے مطابق دھماکے سے متعلقہ متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو مبینہ طور پر ایک ایسے سیل سے وابستہ تھے جس کے روابط تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ملے ہیں۔

ٹی ٹی پی افغان طالبان سے علیحدہ ہونے کے باوجود نظریاتی طور پر ان کے قریب سمجھی جاتی ہے اور گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں متعدد بڑے حملوں میں ملوث رہی ہے۔

عرب نیوز کے مطابق محسن نقوی نے بیکر کو بتایا کہ شدت پسند عدالت کے اندر داخل ہو کر کارروائی کرنا چاہتے تھے، مگر سخت سکیورٹی کے باعث وہ باہر ہی دھماکے پر مجبور ہوئے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ حملے میں ملوث تمام افراد کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور سہولت کاروں کی گرفتاری مکمل ہو چکی ہے۔

انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ حالیہ حملوں میں ’افغان شہریوں اور سرحد پار موجود پناہ گاہوں‘ کا کردار سامنے آ رہا ہے، ایک الزام جسے کابل بارہا مسترد کرتا آیا ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب استنبول میں ہونے والے پاک۔افغان مذاکرات دو ہفتے پہلے بغیر نتیجے ختم ہو گئے تھے۔ پاکستانی حکام کے مطابق افغان فریق نے ’تحریری ضمانت‘ دینے سے انکار کیا کہ افغان سرزمین پاکستان مخالف شدت پسندوں کے لیے استعمال نہیں ہو گی، جبکہ طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد ’افغان حکومت سے پاکستان کی داخلی سلامتی کی ذمہ داری لینے کا مطالبہ کر رہا تھا۔‘

قائم مقام امریکی سفیر نے اسلام آباد حملے کی مذمت کرتے ہوئے جان سے جانے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں نئی شدت پسندی کی لہر اور پاک۔افغان مذاکرات کی ناکامی واشنگٹن کے لیے تشویش کا باعث ہے، کیونکہ افغانستان سے 2021 کے انخلا کے بعد اس کی زمینی موجودگی محدود ہو چکی ہے جبکہ خطے میں دہشت گردی کے خطرات پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان