پاکستانی مزدور تنظیم جرمن کمپنیوں کے خلاف عدالت کیوں جانا چاہتی ہے؟

ٹریڈ یونین فیڈریشن سندھ کے ان 43 کسانوں کی حمایت کر رہی ہے جنہوں نے 2022 کے سیلاب میں نقصانات پر جرمن کمپنیوں کو ہرجانے کا نوٹس دیا تھا۔

پاکستان میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (این ٹی یو ایف) اور میڈیکو انٹرنینشل نے سندھ کے کاشت کاروں کی حمایت میں دو جرمن کمپنیوں کے خلاف جرمن عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

 سندھ کے 43 کاشت کاروں نے 2022 کے سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان جرمن کمپنیوں کو 28 اکتوبر 2025 کو 10 لاکھ یورو کے ہرجانے کا نوٹس بھیجا تھا۔

جرمن کمپنیوں رینش ویسٹ فیلین الیکٹریسٹی ورکس (آر ڈبلیو ای) اور ہائیڈل برگ میٹیریلز کو ہرجانے کا نوٹس دینے والے دادو، جیکب آباد اور لاڑکانہ کے مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والے ان کسانوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں آنے والا 2022 کا سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ تھا جس کی مرکزی ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک میں آلودگی پھیلانے والی بڑی کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے۔

سندھ کے کاشت کاروں کے دعوے کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ جو آلودگی پھیلائے وہی قیمت بھی ادا کرے۔

جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی میں سندھ کے کاشت کاروں کو میڈیکو انٹرنیشل، یورپی مرکز برائے آئینی و حقوق (ای سی سی ایچ آر) ہینڈز ویلفیئر فاؤنڈیشن (پاکستان) اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (این ٹی یو ایف) کا تعاون اور حمایت حاصل ہے۔

این ٹی یو ایف کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور نے انڈ پینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سندھ کے متاثرین نے مل کر شعوری طور پہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ دو جرمن کمپنیوں کو اکاؤنٹ فار کیا جائے اور اس کے لیے سندھ کے 43 زمین داروں نے مل کر لیگل نوٹس بھیجا ہے۔ 

’ان کسانوں نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، میڈیکو انٹرنیشنل اور ای سی سی ایچ  ار کو  پاور آف اٹارنی دیا ہے اور ہم  ان کمپنیوں کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں اگر ان کمپنیوں کا جواب نہ آیا تو پھر ہم ان کے خلاف کورٹ کے اندر کیس کرنے کی طرف جائیں گے۔‘

میڈیکو انٹرنیشنل کے مطابق: ’ہم دسمبر کے وسط میں (شاید 17 دسمبر کو) ہائیڈل برگ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘

یورپی مرکز برائے آئینی و انسانی حقوق (ای سی سی ایچ آر) نے بتایا کہ 28 اکتوبر 2025 کو دونوں کمپنیوں کو باضابطہ قانونی نوٹس بھیج دیا گیا تھا۔ انہیں جواب دینے کے لیے چار ہفتے دیے گئے تھے جس کے بعد اگر بات چیت نہ ہوئی تو دسمبر 2025 میں جرمن سول عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔

چیئرمین ہینڈز ویلفیئر فاؤنڈیشن ڈاکٹر تنویر احمد شیخ نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہینڈز ویلفیئر فاؤنڈیشن میڈیکو انٹرنیشنل جرمنی اور ای سی سی ایچ آر جرمنی کے تعاون سے سندھ کے کسانوں کو آر ڈبلیو ای اور ہیڈل برگ مٹیریلز نامی جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی چاررجوئی میں مدد فراہم کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دونوں کمپنیاں آلودگی پھیلانے والی دنیا کی بڑی کارپوریشنز میں شمار ہوتی ہیں۔ متاثرہ کمیونٹیز موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ تباہ شدہ روزگار کے معاوضے اور کارپوریشن سے جواب طلب کر رہی ہیں۔ یہ خیرات نہیں یہ انصاف ہے۔ جو آلودگی پھیلائے وہ اس کی قیمت بھی ادا کرے۔‘

دوسری جانب ہائیڈل برگ میٹریلز کی کارپوریٹ کمیونیکیشن مینیجر نے انڈپینڈٹ اردو کی جانب سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’ہم تصدیق کرتے ہیں کہ ہمیں ایک لا فرم سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں مبینہ موسمیاتی نقصان کے ازالے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہم اس خط کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک رہا جہاں 2022 میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا۔

اس قدرتی آفت کے نتیجے میں 1700 افراد کی جان گئی جب کہ تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ معاشی نقصان 30 ارب ڈالر تک پہنچا اور سندھ کے کئی علاقے ایک سال سے زیادہ پانی میں ڈوبے رہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے متاثرہ شہری براہ راست یورپی کمپنیوں کے خلاف موسمیاتی نقصان کے دعوے کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں کلائیمٹ جسٹس فوکل پرسن بدرالنسا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2022 کی بارشیں یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمیں اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا۔ حاملہ خواتین کو ہسپتال پہنچانا ممکن نہ رہا، زمینیں بنجر اور زندگی بہت مشکل ہو گئی۔‘

 جیکب آباد کے 42 سالہ کسان عبدالحفیظ کھوسو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ کیسے منصفانہ ہے کہ ہم اس بحران کی قیمت ادا کریں جس کے ذمہ دار ہم نہیں؟ جنہوں نے نقصان پہنچایا، انہیں ہی ازالہ کرنا چاہیے۔‘

ضلع دادو کے کسان عبدالخالق کا کہنا تھا کہ ’2022 کے سیلاب میں سب کچھ ڈوب گیا۔ ہماری 40 ایکڑ زمین برباد ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔‘

لاڑکانہ کے حمزہ خان کلہوڑو کے بقول: ’میری 68 ایکڑ زمین تباہ ہو گئی۔ گاؤں، مال مویشی، گھربار سب ختم ہو گیا۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔‘

ای سی سی ایچ آر  کے بزنس اینڈ ہیومن رائٹس پروگرام کی شریک ڈائریکٹر کلارا گونزالیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آلودگی پھیلانے والوں نے طویل عرصہ ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ مالی قیمت ادا کریں۔‘

بین الاقوامی نظیر

یہ مقدمہ اس قانونی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے جو پیرو کے کسان ساؤل لوسیانو لیویا نے 2015 میں کثیر ملکی جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای کے خلاف مقدمے میں رکھی تھی۔ جرمن عدالت نے مئی 2025 میں ان کے جواز تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ کاربن کے زیادہ اخراج کا سبب بننے والی کمپنیوں کو بیرون ملک ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان