علامہ اقبال کی نظم کیوں پڑھوائی؟ بھارتی سکول ٹیچر معطل

بھارت کی ریاست اتر پردیش میں ایک سکول ٹیچر نے جب بچوں کو اقبال کی نظم پڑھوائی تو انہیں معطل کر کے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی۔

فرقان علی کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی ہے اور اس کے نتائج آنے تک انہیں پڑھانے سے روک دیا گیا ہے (ٹوئٹر)

بھارت کی ریاست اتر پردیش کے پیلی بھیت ضلعے میں ایک سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر کو پانچویں جماعت کے بچوں سے علامہ اقبال کی نظم پڑھوانا مہنگا پڑ گیا۔

اس 45 سالہ ہیڈ ماسٹر کا نام فرقان علی ہے اور ان پر  آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشوا ہندو پریشد نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے صبح کی اسمبلی کے دوران پانچویں جماعت کے بچوں سے علامہ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھوائی تھی۔ پریشد کا کہنا تھا کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی نظم ہے اور مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پہلے تو فرقان علی کو معطل کر دیا گیا اور انکوائری رپورٹ مکمل ہونے تک بچوں کو پڑھانے سے روک دیا گیا ہے اور ان کا تبادلہ ایک اور سکول میں کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں وارننگ دی گئی ہے کہ وہ آئندہ اس حرکت سے باز رہیں۔ فرقان علی ایک ٹانگ سے معذور ہیں اور چلنے کے لیے بیساکھی استعمال کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اقبال کی نظم واقعی مذہبی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بچے کی دعا‘ نامی یہ نظم اقبال نے 1902 میں لکھی تھی اور اس کا عنوان ’بچوں کی دعا‘ ہے۔ یہ گذشتہ ایک صدی سے برصغیر کے ہزاروں سکولوں میں صبح سویرے بچوں کی زبانی سنی جا سکتی ہے۔

اقبال نے جب اس نظم کو اپنی کتاب بانگِ درا میں شامل کیا تو اس پر ’ماخوذ‘ لکھا ہوا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مرکزی خیال اقبال نے کہیں اور سے لیا ہے۔

وہ ’کہیں اور‘ انگریز شاعرہ مٹلڈا بیتھم ایڈورڈز کی نظم Hymn for a Little Child ہے جو 1886 میں شائع ہوئی تھی۔ دونوں نظموں کے پہلے دو دو بند حاضر ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال نے تقریباً نظم کا اردو ترجمہ کیا ہے۔

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے

ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

GOD make my life a little light  
Within the world to glow;    
A little flame that burneth bright,    
Wherever I may go.    
 God make my life a little flower,           
That giveth joy to all,    
Content to bloom in native bower    
Although its place be small.

لیکن جس طرح بیتھم ایڈورڈز کی نظم خالصتاً مسیحی نظم نہیں ہے، اسی طرح ’بچے کی دعا‘ بھی اسلامی نظم نہیں کہلائی جا سکتی، اور اس میں سوائے اس سطر ’میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو‘ میں لفظ اللہ کے سوا کہیں بھی کوئی اسلامی حوالہ موجود نہیں ہے۔

بظاہر لگتا ہے کہ قوم پرست تنظیم وشوا ہندو پریشد اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کو اس نظم سے نہیں، اقبال سے مسئلہ تھا جس کی سزا فرقان علی کو بھگتنا پڑی۔

بیتھم ایڈورڈز 1836 میں انگلستان میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کا انتقال 1919 میں ہوا۔ انہوں نے بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے شاعری کا بھی خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے اور اس کے علاوہ کئی ناول بھی تحریر کیے۔ تاہم آج انہیں بڑی حد تک بھلا دیا گیا ہے اور اس وقت ان کی شہرت کا بڑا دارومدار اسی نظم پر ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ادب