افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات اہم موڑ پر پہنچ گئے

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج اور اتحادی افواج کا افغانستان میں قیام ملکی امن کی راہ میں رکاوٹ ہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ رکاوٹ ختم ہو۔

ماسکو میں ہونے والے امن مذاکرات کا ایک منظر: روئٹرز

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج اور اتحادی افواج کا افغانستان میں قیام ملکی امن کی راہ میں رکاوٹ ہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ رکاوٹ ختم ہو۔

دوحہ  میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بدھ کو ماسکو  میں  مشترکہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان فوجی انخلا کی ٹائم لائن طے کرنے کے لیے جوائنٹ ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ دونوں کے درمیان جوائنٹ ورکنگ گروپ اگلے دس روز میں کام شروع کردے گا۔

یاد رہے کہ  امریکہ کے علاوہ  روس بھی افغان امن عمل میں دلچسپی لے رہا ہے اور ابھی حال ہی میں دوحہ کے علاوہ ماسکو میں بھی ایک اجلاس ہوا جس میں طالبان سمیت مختلف دھڑے حصہ لے رہے ہیں، البتہ اس میں افغان حکومت کے نمائندے شامل نہیں ہیں۔

سہیل شاہین نے اس مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو میں ہونے والے امن مذاکرات میں موجودہ افغان حکومت کے نمائندوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے کیوں کہ امریکہ کے ساتھ معاملات بیرونی نوعیت کے ہیں اس لیے اُن کو پہلے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان حکومت کے ساتھ ہمارے معاملات اندرونی ہے جن پر بعد میں بات چیت کریں گے۔

کیا افغانستان میں سیز فائر ممکن ہو سکے گا؟

سفارتی ذرائع کے مطابق ورکنگ گروپ بنانے کی تجویز پاکستان کی جانب سے دی گئی تھی۔ تجویز زلمے خلیل زاد کے دورۂ پاکستان میں مشاورتی اجلاسوں کے درمیان دی گئی۔ جبکہ  جوائنٹ ورکنگ گروپس انخلا کی تاریخ اور ٹائم لائن کے فریم ورک کی تجویز بنا کر طالبان اور امریکہ مذاکرات میں پیش کریں گے۔انخلا کے ڈرافٹ کو حتمی شکل آئندہ مذاکرات میں دی جائے گی۔ انخلا کا ڈرافٹ فائنل ہونے اور اعلان کے بعد ہی سیز فائر کا اعلان ممکن ہو سکے گا ۔ اور امکان ہے کہ  کسی تیسرے ملک یا ادارے کو ثالث بنایا جائے۔  

افغان طالبان کیا چاہتے ہیں ؟

 ترجمان کے مطابق طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ افغانستان میں اگلی حکومت اسلامی آئین کے مطابق ہونی چاہیے۔ جبکہ افغان طالبان نے موجودہ آئین میں بقول ان کے اسلامی نظریات سے منافی شقوں کی موجودگی کے باعث اُسے مسترد کر دیا ہے۔ اس سے قبل طالبان کے ترجمان شیر محمد عباسستانکزئی ماسکو مذاکرات میں کہہ چکے ہیں کہ طالبان اسلحے کے زور پر افغانستان پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے بلکہ سیاسی عمل میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں۔

امریکہ کن شرائط پر افغانستان سے افواج کا انخلا کرے گا؟

سہیل شاہین نے کہا کہ حالیہ مذاکرات میں امریکہ نے افغانستان سے افواج کے انخلا کو مشروط کر دیا کہ امریکہ افغان سرزمین چھوڑے گا لیکن بدلے میں طالبان سے یہ ضمانت مانگی گئی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین داعش اور القاعدہ سمیت کسی قسم کے دہشت گرد گروہ استعمال نہیں کریں گے۔

امریکی افواج کے انخلا کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

پاکستان کو شکایت رہی ہے کہ اے پی ایس سمیت پاکستان میں ہونے والے اکثر بڑے دہشت گرد حملوں کے ذمہ داران افغانستان ہی سے آتے رہے ہیں اور انھیں وہیں پناہ ملتی رہی ہے۔  تو کیاامریکی فوجی انخلا کے بعد پاکستان کو لاحق سکیورٹی خطرات میں اضافہ نہیں ہو جائے گا؟

پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا سے پاکستان کو سکیورٹی کے کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں کیونکہ پاک افغان سرحد پر دو لاکھ فوجی تعینات ہیں اور سرحدی باڑ لگانے سے بھی سکیورٹی مسائل کو حل کر لیا گیا ہے۔ جبکہ سابق سفیر عاقل ندیم کا کہنا ہے کہ مختلف حالات میں مختلف فیصلے ہوتے ہیں جو وقت کی ضرورت ہوتے ہیں اس وقت افغان طالبان اور امریکہ دونوں مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن ان معاملات میں خطے کی طاقتوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا