مارشل لا کے ڈھنڈورچی

یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں پارلیمان، عدالتیں، میڈیا، شخصی آزادیاں، نقادوں کی عزتیں اور ان سب کو دی ہوئی آئینی ضمانتیں ٹھوکر سے پاش پاش کرنے کی کھلے عام باتیں ہو رہی ہوں؟

اگر ٹویٹر اکاؤنٹس بند ہو جائیں اور ٹی وی کیمرے پریس کانفرنسز دیکھانا ختم کر دیں تو موجودہ حکومت کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا(اے ایف پی)

اردو لغت میں ڈھنڈورچی کا مطلب تلاش کرتے ہوئے آپ کو مندرجہ ذیل تفصیلات ملیں گی۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ ہندی زبان سے ماخوذ اسم آلہ ’ڈھنڈورا‘ کے آخر سے ’ا‘ حذف کر کے اور اس کی جگہ ترکی لاحقۂ فاعلیت ’چی‘ لگانے کے بعد یہ لفظ بنا۔

یہ عربی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے اور اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ مذکر، واحد اسم نکرہ ’ڈھنڈورچی‘ کا مطلب ہے منادی کرنے والا، ڈھنڈورا پیٹنے والا۔ لغت آپ کو اس لفظ کا استعمال بھی بتاتی ہے۔ ’ڈھنڈورچی نے اعلان کیا، سب نے سنا۔‘

اس لفظ کی مکمل لاج رکھتے ہوئے پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے چیدہ چیدہ ڈھنڈورچیوں نے کچھ دنوں سے اپنا کام خوب سر انجام دینا شروع کیا ہوا ہے۔ چند ایک نے ڈھول بجا کر قوم کو باور کروایا کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی مدت ملازمت کے تین سال اب صدر کے دستخط کے ساتھ حقیقت بن چکے ہیں۔ یعنی اب جنرل قمر باجوہ کے مزید تین سال آرمی چیف ہونے میں نہ کسی شک کی گنجائش ہے اور نہ اس کو زیر بحث لا کر کسی اصول پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں کے لیے فوج کے محکمے کے سربراہ کی مدت ملازمت میں طوالت کو اب قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں۔ وہ تمام افسران جو اس فیصلے کے نتیجے سے متاثر ہوں گے اب اپنی زندگی کے باقی سالوں سے متعلق یقین کے ساتھ پلان بنا سکتے ہیں۔

ایک اور ڈھنڈورا ممکنہ مارشل لا کے حوالے سے بھی پیٹا جا رہا ہے۔ ڈھنڈورچی ہمیں بتا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی سیاسی جماعتوں نے ڈی چوک کی طرف مارچ کرنا شروع کیا تو اس ملک میں فوجی حکومت آ جائے گی جس کے نتیجے میں احتساب کا عمل تیز بھی ہو گا اور گرم بھی۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تحمل اور احتیاط برتی جائے۔ کہیں فوجی سربراہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دیں کہ تمام احتجاجی سیاستدانوں کو پچھتانا پڑے۔

ظاہر ہے اس قسم کی منادی کا مقصد فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھ بیٹھی علاقائی جماعتوں کو متاثر کرنا ہے۔ مگر اصل میں ڈھنڈورچیوں کا پیغام پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے ہے کہ یہ دونوں فضل الرحمٰن کے احتجاجی اجتماع کو عددی طور پر مزید پر اثر بنانے سے گریز کریں ورنہ ان کو مزید تن دیا جائے گا۔

ظاہر ہے اگر بڑی جماعتیں ملک میں جمہوری احتجاجی مارچ کا حصہ نہیں بنتیں تو مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھوں سے بنی ہوئی رہبر کمیٹی بھی غیر فعال ہو جائے گی اور ایک منقسم حزب اختلاف آپس میں گتھم گتھا ہو کر اپنے ہی مقاصد کے حصول میں ناکام ٹہرے گی۔

 مارشل لا سے متعلق خوف پھیلانا ایسی نفسیاسی جنگ ہے جو ہمیں اصل میں ہندوستان کے خلاف لڑنی چاہیے۔ مگر چوں کہ کرتارپورہ راہداری کے ذریعے ہم کشمیر کے چھن جانے کے بعد نئے رابطے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا ڈھنڈورچیوں کی بہت سی توانائیاں اب داخلی امور پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ شاید یہ بھی ایک اندرونی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے کہ خادم حسین رضوی طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے دوبارہ سے لاہور کی سرزمین پر نمودار ہوئے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ ان کی آمد سے ختم نبوت کے وہ نعرے جو آزادی مارچ کے میدانوں میں گونج رہے ہیں اب خادم صاحب کی تحویل میں چلے جائیں گے۔

میں ذاتی طور پر مذہبی اور دینی معاملات کو سیاست میں گھسانے کا شدید مخالف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ سیاست کے تمام پہلو ان امور سے دور رہنے چاہیں جن پر تیل چھڑکنے سے امن کو بھسم کرنے والے شعلے ہی بلند ہو سکتے ہیں۔ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ فیض آباد دھرنے کے دوران ختم نبوت کے معاملے کو سیاسی تلوار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت اس بے باکی سے اپنائی گئی کہ ہم جیسے لوگوں کے تمام تجزیے اور گزارشات مکمل طور پر بے اثر ثابت ہوئے۔ بہرحال جو اصول فیض آباد کے دھرنے پر لاگو ہوتا تھا آزادی مارچ بھی اسی کے تابع ہونا چاہیے۔ مگر خادم حسین رضوی کی واپسی بہت دلچسپ اور بامعنی ہے۔

اس وقت پاکستان میں بذریعہ ڈھنڈورچیوں کے جو تاثر پھیلایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں احتجاج کے نتیجے میں جمہوریت اور آئین کا تختہ ہو جائے گا۔ اس تاثر کے پھیلانے والے ظاہر ہے بےضرر قسم کے لوگ ہیں۔ ان کو جو کہا جا رہا ہے اس کی تشہیر کا بندوبست کرنے کے علاوہ ان کی کوئی اور ذمہ داری نہیں۔ مگر اس پیغام کے اندر چھپے ہوئے مسائل بہرحال سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان عملًا ایک نیم مارشل لائی کیفیت میں موجود ہے۔ سیاسی قائدین جیل میں ہیں۔ میڈیا کا سر نگوں ہے اور اگرچہ چند ایک فصلی بٹیرے اب پینترے بدل کر خود کو حقیقی جمہوریت کے جوان مرد سپاہی کے طور پر پیش کر رہے ہیں مگر حقیقت میں اکا دکا مثالوں کے علاوہ ذرائع ابلاغ عمومی طور پر طاقت کے غیر جمہوری استعمال کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

آئین اور قانون کے باقی محافظ کمزور سیاستدانوں پر لمبے لمبے لیکچروں کے ذریعے رعب تو جھاڑتے ہیں لیکن آئین کی بڑی پامالیوں کو نظر انداز کر کے ہر روز سکون سے نیند بھی کرتے ہیں اور اگلے دن ٹھاٹھ سے کرسیوں پر بھی براجمان نظر آتے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والا سیاسی نظام وزیر اعظم سمیت بیشتر حکومتی معاملات سے ہاتھ کھینچ چکا ہے۔ سربراہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے صدر فضل الہٰی چوہدری کی یاد تازہ کرواتے ہیں۔ جن کا کام فیتے کاٹنا اور تصویریں کھینچوانا تھا۔ عمران خان معاشی، خارجی، داخلی اور آزادی مارچ سے بننے والی صورت حال کے بعد سیاسی امور پر بھی اب پچھلی سیٹ کی سواری ہیں۔ ہندوستان سے معاملات طے کرنے ہوں یا کنٹینروں کی جگہ کا تعین کرنا ہو عمران خان کی حکومت کسی جگہ پر نہ اپنی پالیسی بنا رہی ہے اور نہ ہی بنا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر ٹوئٹر اکاؤنٹس بند ہو جائیں اور ٹی وی کیمرے پریس کانفرنسیں دکھانا ختم کر دیں تو موجودہ حکومت کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر مارشل لا کا لگنا یا نہ لگنا ایک اہم مگر حقیقت میں کسی بڑی تبدیلی کی نشاندہی نہیں کرتا۔ ویسے بھی یہ کیسی جمہوریت ہے جو مارشل لا کے خوف کے زیر سایہ چلائی جائے، جہاں پر ڈھندورچی ہر گلی کوچے میں چلا چلا کر آئین کی بدترین خلاف ورزی کو ایک اٹل حقیقت کے طور پر بیان کر رہے ہوں اور وہ تمام منصفین جو آئینی شقوں پر مباحثے کرتے ہیں اس چیخم دھاڑ کو ایسے صرف نظر کریں کہ جیسے یہ اپنی سر زمین پر نہیں بلکہ اس کائنات کے کسی اور سیارے پر گونج رہی ہو۔

یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں پارلیمان، عدالتیں، میڈیا، شخصی آزادیاں، نقادوں کی عزتیں اور ان سب کو دی ہوئی آئینی ضمانتیں ٹھوکر سے پاش پاش کرنے کی کھلے عام باتیں ہو رہی ہوں اور حکومت کے اپنے وزرا ان امکانات کو چہک و لہک اور چبا چبا کر عوام کے سامنے ایسے بیان کریں کہ جیسے مفتی منیب عید کے چاند کی خبر دیتے ہیں۔ اس خوفزدہ ماحول میں یہ ڈھنڈورچی مزید کتنا خوف پھیلا سکیں گے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ حقیقی مارشل لا لگانے کا عمل اس دہلیز کو پار کیے بغیر نہیں ہو سکتا جس کے بعد آئین کو توڑنے کی شقیں لاگو ہو جاتی ہیں۔ آئین مارشل لا لگانے کے عمل کو کیسے دیکھتا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ آئین کی گرفت سے بچنے کے لیے جو حربے ماضی میں استعمال کیے گئے وہ سب ناکام ثابت ہوئے۔

ضیاء الحق سے لے کر مشرف تک آئین کو توڑنے کے عمل پر جتنی بھی قانونی ملمع سازی کی گئی وہ جبر کے کم ہوتے ہی ٹوٹ پھوٹ کر ان رنگ بازوں کے گلے میں پڑ گئی جو اس عمل کے مرتکب ہوئے تھے۔ ملک اور قوم افرا تفری کا شکار ہوئے۔ دنیا میں بدنامی کے علاوہ بدترین اندرونی توڑ پھوڑ وہ چند ایک نتائج ہیں جو مارشل لاء لگانے سے ہٹانے تک کے تمام عمل میں حاصل ہوئے۔

ایک اور طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ  موجودہ آئین کو ختم کر کے نیا آئین بنایا جائے۔ یعنی ایوب خان قسم کا ایک اور تجربہ۔ اس کے نتائج کے بارے میں سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ انتخابات مرضی سے کروا کے دیکھ لیے نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پسند کی مذہبی جماعتوں سے منتخب حکومتوں کی بےعزتی کروا کے نکلوایا گیا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ احتساب کی ڈوریں ہلائی گئیں نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ خارجہ اور دفاعی پالیسی چلائی گئی نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ نئے آئینی تجربے کا نتیجہ اس سے کیا مختلف ہو گا؟ زیادہ بھیانک اور درد ناک ہو گا یہ یقین ہے۔ ڈھنڈورچی اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی منادی میں پنہا خطرناک حماقتوں سے ناواقف ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ