سپریم کورٹ ججز کے استعفے ’سیاسی‘، مزید آئینی ترمیم کرنا پڑی تو کریں گے: طلال چوہدری

طلال چوہدی کے مطابق آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ نظر آنا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری 18 اپریل، 2025 کو اسلام آباد میں میڈیا سے خطاب کر رہے ہیں (پی آئی ڈی)

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اتوار کو سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے استعفوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں ’سیاسی استعفے‘ قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے جمعرات کو صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد احتجاجاً استعفے دے دیے تھے۔

27ویں ترمیم نے صدر مملکت اور آرمی چیف کو تاحیات استثنیٰ فراہم کرنے کے علاوہ  فیلڈ مارشل عاصم منیر کو پانچ سالہ مدت کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کے منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔

اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ سے ہٹ کر ایک نئی وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) قائم کی گئی ہے جو آئینی معاملات کی سماعت اور تشریح کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں ترمیم کو پاکستان کے آئین پر ’سنگین حملہ‘ قرار دیا۔

طلال چوہدری نے آج فیصل آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ’یہ سیاسی استعفے ہیں اور ان کے فیصلے بھی کافی عرصے سے سیاسی رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور ’پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ نظر آنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ بننا چاہیے، 26ویں اور 27ویں ترامیم نے پاکستان کو استحکام دیا اور اگر ہمیں دیگر جماعتوں کی مدد سے مزید ترامیم کرنی پڑیں تو ہم کریں گے۔‘

دوسری جانب جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے سے قبل انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس مجوزہ ترمیم کے آئینی نظام پر اثرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے لکھا ’میں نے اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ فرائض کو اپنے حلف کے مطابق نبھانے کی کوشش کی، لیکن آج وہی حلف مجھے اپنے عہدے سے باضابطہ طور پر استعفیٰ دینے پر مجبور کر رہا ہے۔‘

’جس آئین کو میں نے برقرار رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کا حلف لیا تھا، وہ اب باقی نہیں رہا۔

’میں نے خود کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ شاید ایسا نہیں، مگر میں اس سے بڑا حملہ کسی اور پر نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اب جو نئی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں، وہ صرف اس آئین کی قبر پر استوار کی جا رہی ہیں۔ جو باقی رہ گیا ہے، وہ محض ایک سایہ ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں 27ویں آئینی ترمیم کو ’پاکستان کے آئین پر ایک سنگین حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم نے سپریم کورٹ کو کمزور، عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت اور جمہوری ڈھانچے کے بنیادی اصولوں کو متاثر کیا ہے۔

ان کے مطابق، ’یہ ترمیم اعلیٰ عدلیہ کی وحدت کو توڑ کر عدالتی خودمختاری اور دیانت داری کو مفلوج کر دیتی ہے اور ملک کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تاریخ گواہ ہے کہ ایسے آئینی بگاڑ دیرپا نہیں ہوتے — بالآخر درستگی کی طرف لوٹ آتے ہیں — مگر اپنے پیچھے ادارہ جاتی زخم ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔‘

جسٹس شاہ نے لکھا کہ ان کے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو وہ بطور سپریم کورٹ کے جج خدمات جاری رکھتے جس سے وہ اس ادارے کی بنیادوں کو کمزور کرتے جس کے تحفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے، یا پھر وہ اپنا استعفیٰ دے دیں۔

ان کا کہنا تھا، ’عہدے پر برقرار رہنا ایک ایسے آئینی غلطی پر خاموش رضامندی ظاہر کرنے کے مترادف ہوتا اور اس عدالت میں بیٹھنے کے برابر ہوتا جس کی آئینی آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔‘

جسٹس شاہ نے اپنے خط کے اختتام پر لکھا، ’ایسی کمزور اور محدود عدالت میں رہ کر میں نہ تو آئین کا تحفظ کر سکتا ہوں، اور نہ ہی اس ترمیم کا عدالتی جائزہ لے سکتا ہوں جس نے خود آئین کی صورت بگاڑ دی ہے۔‘

پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں، جن کی قیادت سابق وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کر رہی ہے اور وکلا تنظیموں نے بھی 27ویں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

وکلا تنظیموں کا مؤقف ہے کہ ان اصلاحات سے حکومت کو نئی قائم شدہ ایف سی سی میں ججز کی تقرری اور بینچ کی تشکیل پر براہِ راست اثرانداز ہونے کا اختیار مل جائے گا، جس سے آئینی تشریح کا نظام حکومتی اثر کے تابع ہو سکتا ہے۔

نئے نظام کے تحت ایگزیکٹیو ایف سی سی کے چیف جسٹس اور ابتدائی بینچ کا تقرر کرے گا جبکہ سپریم کورٹ بنیادی طور پر ایک اپیلیٹ فورم بن جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان