مجھے قتل ہونا پسند نہیں اس لیے پاکستان نہیں آتا: بھٹو جونیئر

یہ مکالمہ ہوا ہمارا اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا اور یہ واقعہ ہے گذشتہ دنوں کا جب امریکی ریاست وسکانسن کی ایک صبح، چھوٹے بھٹو اور میں جنوبی ایشیا کے بارے میں یونیورسٹی آف وسکانسن میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران اکٹھے ہوئے۔

(انسٹاگرام/ ذولفقار علی بھٹو جونئیر)

’حضرت، آپ کی ڈانس ویڈیو نے پاکستان میں وہ اُودھم مچایا ہے کہ کچھ نہ پوچھیں۔ آپ کے بارے میں دو طبقوں نے وجود پایا ہے، ایک ملامتیں کرنے والا اور دوسرا آپ کا قصیدہ گو ہے، مجھے دوسرے طبقے میں شامل سمجھیں۔‘

’اچھا، آپ نے دیکھی ہے وہ ویڈیو؟‘

’جی بالکل۔‘

یہ مکالمہ ہوا ہمارا اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا اور یہ واقعہ ہے گذشتہ دنوں کا جب امریکی ریاست وسکانسن کی ایک صبح، چھوٹے بھٹو اور میں جنوبی ایشیا کے بارے میں یونیورسٹی آف وسکانسن میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران کھانے کی میز پر اکٹھے ہوئے۔

بھٹو جونیئر کا حلیہ بھی سن لیجیے۔ سر کے بال صفا چٹ، ٹنڈ ایسی صاف اور چمکیلی جیسے مکھن لگا کر رگڑا ہو، مونچھیں باریک اور تیز، پینٹ شرٹ ڈھیلی ڈھالی اور آواز میں ملائمت کا رس۔ رنگ نہ زیادہ گورا نہ کالا، گندم گوں۔

ہم نے اپنا تعارف کروایا تو چونکے، ’کیا آپ نے افسانے بھی لکھے ہیں؟‘

جی حضور، ’اس ناچیز نے اِس صنف میں بھی کچھ ایک دو کتابیں نکالی ہیں۔‘

 ارے تو یوں کہیں نا کہ ’وٹ ول یو گِو فار دِس بیوٹی‘ والی کتاب آپ کی تھی۔ مجھے فاطمہ نے پڑھنے کو دی کہ یہ پڑھ کر دیکھو، آپ بہت اچھے افسانے لکھتے ہو۔ اُن میں پنجاب پر بہت عمدہ سماجی اور نفسیاتی کام ہے۔ آئی لائیک اِٹ۔  لے یہ لیجیے، یہ سبزی بہت اچھی ہے۔ کچھ اور بھی لکھا؟

جی لیکن ابھی وہ انگلش میں نہیں ہو پایا۔ ضرور آپ کو بھیجوں گا۔ اگر انگلش میں ترجمہ ہو گئیں تو۔ ہاں ایمازان پر ایک کتاب مزید ہے،شاہ محمد کا تانگہ۔ اررے آج ہی ڈھونڈتا ہوں۔‘

اُس کے بعد ہم نے کھانا کھایا اور کافی پی، اور کچھ باتیں کرنے لگے، مجھے جستجو تھی جونیئر کو مزید دیکھوں اور پاؤں کہ کیسے دنیا کرتے ہیں اور کیسے داری۔ میں نے پوچھا، ’آپ پاکستان میں کیوں نہیں آتے اور پاکستان کی ڈوبتی نیا کاہے کو نہیں بچاتے کہ بھٹو کے اصلی وارث تو آپ ہی ہیں۔‘

بولے، ’ناطق جی، آپ رائٹر ہیں، کیا نہیں جانتے سیاست میں جنھیں قتل و غارت کی عادت نہیں ہوتی وہ قتل ہو جاتے ہیں؟ مجھے قتل ہونا پسند نہیں اور ایسی حالت میں کہ جب اُس کے بدلے میں خلقِ خدا کا بھلا بھی نہ ہو۔ اب یا تو مَیں دل و کتاب کا آدمی ہو جاتا یا جنگ و جدل کا۔ مجھے دل کی بستی اچھی لگی اور اِس میں چلا آیا۔‘

چھوٹے بھٹو کی یہ بات ہمارے دل کو کھا گئی، یہ تھا لہجے کا متین، گفتگو کا متحمل اور باتوں کو صبر سے سُننے کا عادی نوجوان، پیپلزپارٹی کے بانی کا واحد پوتا چھوٹا ذوالفقار علی بھٹو۔ میرے سامنے ایک نہایت سادہ اور معصوم انسان کی طرح یوں بیٹھا تھا جیسے صدیوں کا کرب اور زمانوں کی داستانیں اپنے کلیجے میں چھپائے ہوئے ہو۔ وہاں دو چار کے علاوہ اس کے جاننے والے کوئی خاص نہیں تھے اور نہ مجھے۔ اِس لیے فرصت میسر تھی اور باتیں بہت ہوئیں۔ پاکستان کے بارے میں بہت تھیں، عوام کے بارے میں بہت تھیں اور اُن کے بارے میں جو عوام سے مسلسل کھیلتے ہیں۔

ہم نے کہا، ’عوام کے ساتھ کھیلنے والوں میں کہیں نہ کہیں پیپلز پارٹی تو مزاحم رہی ہے، کم از کم بی بی بے نظیر پر تو الزام نہ لگایئے۔‘

ہماری اِس بات پر پہلے وہ چُپ رہے، پھر ہنس دیے، پھر گویا ہوئے، ’بھائی ناطق، دادا کے بعد کون ہو سکتا تھا جو اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراتا؟ جو اپنے ہی گھر پر قبضہ کر لیں وہ اشرافیہ سے عوام کےحقوق کا قبضہ کیسے چھڑا سکتے ہیں؟ سب پانی کا بلبلہ ہے۔ یہاں جس جس نے عوام کے خون کے پیسے وصول کیے دادا ابا کے بعد اُس میں پیپلز پارٹی کسی دوسری پارٹی سے پیچھے نہیں رہی، مگر یہ باتیں عارفانہ ہیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ پاکستان میں جمہوریت تاش کا ایسا پتہ ہے جس کے اوپر کا رنگ جمہوری یا لال ہوتا ہے اور نیچے کا رنگ خاکی اور وہی اصلی ہوتا ہے۔‘

 پوچھا، ’اور ہم جو جمہوری جنگ لڑ رہے ہیں وہ کیا ہے؟‘

’وہ آپ کی آنکھ کا دھوکہ ہے اور یہ دھوکا اہلِ ہوس دہائیوں تک دیں گے۔‘

’آپ پاکستان میں یا یہیں مغرب میں رہ کر یہ باتیں عوام سے شئر کیوں نہیں کرتے؟‘

’پاکستانی عقل کی باتیں نہیں سنتے، وہ اپنی خواہش کے نعرے سنتے ہیں، ویسے بھی مجھےے اپنی جان عزیز ہے، یہ ہے تو جہان ہے۔ ‘

’اچھا تو آپ اِن دنوں کہاں بسرام رکھتے ہیں ؟ کیا کھاتے پیتے ہیں اور کیونکر زندگی کرتے ہیں؟‘

’کھاتا تو وہی ہوں جو آپ بھی کھاتے ہیں، مجھے پینے پلانے کا شوق نہیں کہ مَیں ویسے ہی مست ہو جاتا ہوں۔ اور زندگی بنجاروں کی طرح جیتا ہوں کبھی اُس گلی کبھی اِس گلی۔ لندن اور اُس کے مضافات میں اکثر پایا جاتا ہوں، ویسے مجھے میرا ٹھکانا خود نہیں معلوم۔ ‘

وہاں دو چار کے علاوہ  اُس کے جاننے والے کوئی خاص نہیں تھے، اس لیے فرصت میسر تھی  اور باتیں بہت ہوئیں۔ پاکستان کے بارے میں بہت تھیں، عوام کے بارے میں بہت تھیں اور اُن کے بارے میں جو عوام سے مسلسل کھیلتے ہیں۔ ہم دونوں کافی پیتے رہے تھے اور باتیں کرتے رہے۔

بھٹو جونیئر اس کانفرنس میں بطور مندوب شرکت کر رہے تھے۔ کہنے لگے، ’مجھے پاکستان میں دہشت گردی کے اسباب پر کچھ کہنا تھا۔ آپ سننے آئیے نا اڑھائی بجے۔ اِسی سامنے والے کمرے میں ہے۔‘

جہاں ان کی پریزنٹیشن تھی وہاں پچیس سے تیس افراد مربع کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ بھٹو نے بات شروع کی اور اُن سلائیڈوں کے ذریعے جو وہ بنا کر لائے تھے۔

کچھ سلائیڈیں گوریلا لڑائی لڑنے والوں کی ہاتھ سے بنی ہوئی تصویریں تھیں۔ ان کے پاس نوکیلے پتھر تھے، اُس کے بعد کی سلائیڈوں میں زمانہ آگے نکل چکا تھا، گوریلا لڑنے والوں کے ہاتھ میں چاقو اور چھریاں تھیں، سلائیڈیں بدلتی گئیں، اور وقت بھی نکلتا گیا، گوریلوں کے ہتھیار جدید ہوتے گئے اور زمانہ بھی جدید ہوتا گیا۔ یہ سلائیڈیں پہلے پتھروں پر تھیں، پھر پتوں پر تھیں اُس کے بعد کاغذوں پر منتقل ہوئیں اور آخر میں سکول اور کالجوں کی کتابوں پر بنیں۔ یہ دور تھا حضرت مدضلہ جنرل ضیا کا۔

یہ تصویریں کیسے بنیں اور کس نے بنائیں اور افغانستان اور پاکستان کے سکولوں اور کتابوں کی زینت کیوں بنیں یہ سب جونیئر نے آہستہ آہستہ وہاں دکھایا اور بات کی۔ ان لوگوں کے نام اور فوٹو تک دکھائے جنھوں نے یہ شہ پارے تیار کیے تھے، وہ ہمارے مائی باپ امریکی تھے۔

تب بھٹو نے وہ دستاویزات دکھانا شروع کیں جو اللہ جانے اُس کے ہاتھ کیسے آئیں جن میں ہمارے ملاؤں سے لے کر جرنیلوں تک کو ہدایات دی ہوئی تھیں، اُن میں ٹارگٹس اور رقوم کا بیان تھا۔ پھر یہ جنگ روس سے شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں کیونکہ منتقل ہوئی، اُس پر چھوٹے بھٹو نے بولنا شروع کر دیا۔ پہلے شیعت کا تعارف کرایا، اور ایسے کرایا جیسے کوئی عمر رسیدہ عالم بول رہا ہو، وہ باریک عقائد کی گتھیاں سلجھاتا چلا گیا، ایسے کہ مجھے اُس کے مطالعے اور تاریخ شناسی پر رشک آنے لگا۔

اس کے بعد اسامہ بن لادن اور اس کے گماشتوں اور امریکنوں اور جنرل ضیا کی تثلیث کا بنیادی جوہر کشید کر کے وہاں بیان کیا۔ یہاں رقم اور ہدایات عربوں کی تھیں، تربیت سی آئی اے کی اور دست و بازو جنرل ضیا صاحب اور اُن کے سگوں کے۔ یورپ نے کس کس طرح اِس میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ لیا، یہ سب کہانی انتہائی چابکدستی کے ساتھ اُس نے سنائی اور پورے مجمعے سے داد پائی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھٹو کے اِس ایک گھنٹے کی پریزینٹشن سے مَیں نے یہ جانا یہ اصل مسئلہ ملاگردی یا کیپیٹل ازم نہیں صرف چند لوگوں کے نظریات کی توسیع پسندی تھی جنھیں اِس پورے خطے میں روس کے بعد نافذ کرنا تھا اور وہ اب تک کوشش جاری ہے لیکن ناکام کوشش۔ البتہ اِس کوشش میں خون کے دریا ضرور بہہ گئے ہیں وہ بھی شیعوں کے۔

اُس کے بعد ہم دوبارہ اکٹھے ہوئے اور کہا، ’باوا جی، آپ تو بہت مہاکار نکلے واللہ اگر پاکستان میں ہوتے تو بہت سارے چغدوں سے جان چھٹ جاتی۔‘

ہنس کر بولے، ’وہاں ہوتے تو وہ چغد ہم سے جلد جان چھڑا لیتے۔‘

ہم نے اس کی بات پر صاد کیا، پھر فرمایا، ’اچھا ایک بات تو بتائیے، یہ جو آپ عورت کی طرح بنے پھرتے ہیں، رقص کرتے ہیں، قصبہ قصبہ گھومتے ہیں، کبھی بال بڑھا کر، کبھی ٹنڈ کرا کر، کبھی ناچ کر، کبھی چل پھر کر، کبھی مردانہ وار، کبھی زنانہ حال، اِس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟‘

کہنے لگے، ’ہم بنجارے ہیں، تم شاعر ہو افسانے لکھتے ہو، مجھ سے نہیں یہ ہو پایا، تو کچھ تو کرنا تھا، بس دل کو سکون جس میں پاتا ہوں اُسی بھیس میں آ جاتا ہوں، آپ مجھے بنجارہ سمجھ لیجیے۔ اچھا اب مجھے اجازت دیجیے کہ مَیں نے ابھی ابھی شکاگو نکلنا ہے، شام کی فلائٹ سے۔‘

ہم بھٹو خانوادے کے اس وارث کے گلے ملے، ننگی ننگی ٹنڈ کو بوسہ دیا اور رخصت کر دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان