بابا جی کے بھوت

چار مرید حکم سُنتے ہی میدان میں کودے اور گردنیں دبوچ کر بکرے بابا جی کے سامنے لا کھڑے کیے۔ بابا جی نے حکم دیا: ’اِن کے کان اُس وقت تک نہیں چھوڑنے جب تک گلے پر چھُری نہ پھیر لو ورنہ دوبارہ بھوت بن جائیں گے۔ فوراً برآمدے میں پردہ کر کے اِنہیں ذبح کردو۔‘

(تصویر: پکسا بے)

رائے ونڈ قصور روڈ پر راجہ جنگ ایک قصبہ ہے۔ اِس چھوٹے سے قصبے میں دنیا کے ایسے بڑے بڑے عجوبے ہیں کہ اللہ بسم اللہ۔

حقے بنانے والے، ٹینک بنانے والے، گوبھی بیچنے والے، ہیروئن بیچنے والے اسی قصبے کے بادشاہ ہیں اور آبادی اِس کی 20 سے 30 ہزار پر ہوگی۔  قصبے کے سامنے ریلوے سٹیشن ہے، سٹیشن پر پیپل کے اونچے اونچے درخت بہار دکھاتے ہیں اور اجڑے دنوں کا نوحہ گاتے ہیں۔ منظر یہاں بہت خوبصورت ہیں۔ سٹیشن کے دوسری طرف ایک مقبرہ نظر آئے گا جس کا گنبدِ گردوں اوربلند مینار صاحبِ مزار کی ولایت اور جلالت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہیں کا ایک قصہ سُن لیجیے۔

 یہ 16 سال پُرانی بات ہے۔ مَیں تازہ تازہ مڈل ایسٹ کی آوارگی سے سٹپٹا کر اور دھکے کھا کر پاکستان پہنچا تھا۔ کرنے کو کچھ نہ تھا۔ ایک جاننے والے نے کہا: ’بھئی تمھارے لیے ایک کام ڈھونڈا ہے، پیسے مناسب ملیں گے۔‘ ایک پیر صاحب کا مقبرہ تعمیر کرنا ہے اورایسا تعمیر کرنا ہے کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں اور خود پیر صاحب ششدر ہو کر پہلے بے ہوش ہوں، پھر فوت ہوں۔

مَیں اُس کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے اِسی قصبے میں لے آیا۔ جس جگہ اُس نے مقبرہ بنانے کی غرض سے مجھے لا کر کھڑا کیا یہ جگہ اُن دنوں بالکل خالی تھی اور 25، 30 کنال کا کُھلا رقبہ تھا۔ ہم ایک احاطے میں داخل ہوئے۔ یہاں دو چار کمرے اور اُن کے آگے تنگ قسم کے دالان در دالان تھے۔ سامنے کھلا صحن، جس کے ارد گرد نہایت چھوٹی دیوار تھی کہ باہر دور تک نظر جاتی۔

ایک دالان میں کالا جانگیہ پہنے، مالائیں اور کڑے اورمختلف پتھروں کی بے شمار انگوٹھیاں اَڑسے ایک نہایت کالا بھجنگ اور ننگ دھڑنگ آدمی بیٹھا تھا۔ دو لوگ چرس کے سگریٹ بھرے جاتے تھے، باقی پیے جاتے تھے۔ بابا جی بھی سوٹے لگائے جاتا تھا اور اُس کے منہ سے دھواں ایسے بہتا تھا جیسے چمنی سے کالے بادل نکل رہے ہوں۔

اِرد گِرد لوگوں کا ایک ہجوم بیٹھا تھا۔ سب با ادب اور با ملاحظہ۔ کچھ چہروں مُہروں سے امیر کبیر نظر آئے، کچھ اُسی بابا جی کی طرح موالی تھے اور چرس میں ہم نوائی کر رہے تھے۔ دھواں تھا کہ بھٹہ چمنیوں کے برابر۔ مجھے ایک ہی دم اُبکائی سی آگئی۔ بڑی مشکل سے دِل کو سنبھالا دیا۔

سردیوں کے دن تھے۔ بابا جی کے سامنے جلے بجھے کوئلوں کا ڈھیر لگا تھا اور مورے داتا پیا کی قوالی چلی جاتی تھی۔ میں ایک طرف تعظیم سے کھڑا ہوگیا۔ میرا دوست ادب سے آگے بڑھا اور بابا جی کے کان میں کہا: ’حضور راج مستری حاضر ہو گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابا جی نے ایک نظر مجھے دیکھا، پھر میرے دوست کی طرف، پھر مجھے دیکھا اور پاؤں سے سر تک ایسی نظر سے ٹکٹکی باندھی کہ مجھ پر دُلہن کی سی سُرخی چھا گئی۔ آخر چرس کے طویل دُھویں کی سیاہ دیوار کے سائے تلے سوچ بچار کے بعد بابا جی فرمانے لگے: ’یہ لڑکا کام کر لے گا؟ بھئی کہاں سے سکول کے لونڈے کو اُٹھا لائے ہو؟‘

میرے دوست نے کہا: ’بابا جی اِسے چھوکرا نہ سمجھیں۔ بڑے گُن ہیں اِس لونڈے میں۔‘

اب بابا جی اُٹھے، ان کے اُٹھتے ہی تمام مجمع بھی اُٹھا۔ بابا جی سرکار نے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھا اور ایک طرف کو لے کر چل دیے۔ وہ دوست بھی ساتھ تھا۔ صحن کے درمیان آ کر رُک گئے جہاں گلاب اور چنبیلی کے پھولوں کا فرش بچھا تھا۔ کہنے لگے: ’یہ جگہ دیکھ رہے ہو؟ یہاں مجھے مدینے والی بڑی سرکار کا دیدار ہوا ہے اور عین اِس جگہ ایک قبر دکھائی ہے۔ اب یہاں اِس مقام پر مزار بنانا ہے۔ جس پر ایک بڑا عالیشان گنبد ہو اور اُس کے ارد گرد چار مینار ہوں۔‘

مَیں نے نظر کی تو جگہ بالکل خالی تھی، کسی قبر کا نشان نہ تھا۔ عرض کیا: ’بابا جی یہاں تو کوئی قبر نظر نہیں آ رہی جس پر مزار کی تعمیر کرنی ہے۔‘ بولے: ’بیٹا، یہاں میری ہی قبر بنانی ہے۔ آپ قبر بنا کر اُس کے اُوپرمقبرہ تعمیر کردو۔ جب مروں گا تو یہیں دفن ہوں گا۔‘

میں نے کہا: ’بابا جی مرنے والا خیر کا کام آپ پہلے کرلیتے تو کیا اچھا نہیں تھا؟‘

بولے: ’زیادہ سیانے نہ بنو، اِس میں ہماری اپنی مرضی ہے، تم اپنا کام کرو، اگر کر سکتے ہو تو۔‘

میں نے کہا: ’بابا جی ایک چھوڑ آپ پورے خانوادے کے مقبرے کہو تو بنا دوں گا۔‘

’نہیں پہلے میرا بناؤ اور صرف میرا ہی بناؤ۔‘

قصہ مختصر کام شروع ہو گیا۔ مَیں نے اپنے چھوٹے بھائی علی اشرف کو بلا لیا جو اُن دنوں سکول سے نیا نیا بھاگا تھا لیکن پیدائشی آرٹسٹ واقع ہوا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے کام شروع کر دیا۔ بابا جی کو ہمارا کام پسند آنے لگا، قبر تیار ہو گئی، مقبرہ شروع ہو گیا، ستون اور ڈاٹوں کا کام مکمل ہوا، گنبد تعمیر ہوا، مینار بنے، آٹھ نو ماہ گزر گئے۔ نہ ہماری اُجرت میں تعطل آیا نہ کام میں۔

ادھر بابا جی کا حال سُنیے، اِن آٹھ مہینوں میں ہم نے اُنہیں ایک ہی جانگیے میں دیکھا، اُسے اُنہوں نے روح کی طرح جان سے لگا کر رکھا تھا۔ نہانے کو عیب سمجھتے تھے۔ عبادت کے نام پر صرف قوالی سُنتے تھے۔ چرس کو تجلیاتِ الہیٰ سے تقرب کا ذریعہ جانتے تھے، پاؤں میں کھڑاوں کی ٹھک ٹھک چلتی۔ ملنگنیوں کا رقص اور کھُسروں کے مجرے مجاہدۂ نفس کے کام آتے تھے۔ البتہ روٹی روزانہ بھوت کے گوشت کی یخنی اور شوربے سے کھاتے تھے۔ یہ بھوت کہاں سے لیتے تھے۔ یہی بتانے کی اصل بات ہے۔

ہوا یہ کہ ایک دن شام کا دھندلکا سا تھا، بابا فتح سرکار بمع مریدین چرس کے شغل کے ساتھ ساتھ قوالی سے عبادت فرما رہے تھے۔ ہلکی ہلکی دُھند اور پالے کا موسم تھا۔ اِتنے میں سڑک سے دو بکرے گزرے۔ مالک ساتھ نہیں تھا، اُنہیں دیکھتے ہی بابا جی کی آنکھیں سُرخ ہوئیں اور ایک ہی دم اللہ ہو کا نعرہ مارا اور کہا: ’جلدی سے یہ دونوں بکرے پکڑ لو۔ اصل میں یہ بھوت ہیں اور بکروں کا روپ دھار کر پھرتے ہیں۔‘

چار مرید حکم سُنتے ہی میدان میں کودے اور گردنیں دبوچ کر بکرے بابا جی کے سامنے لا کھڑے کیے۔ بابا جی نے حکم دیا: ’اِن کے کان تم نے اُس وقت تک نہیں چھوڑنے جب تک گلے پر چھُری نہ پھیر لو ورنہ دوبارہ بھوت بن جائیں گے۔ فوراً برآمدے میں پردہ کر کے اِنہیں ذبح کردو۔‘ لو جی چند لمحے میں مریدوں نے دونوں بھوت ذبح کر دیے۔ بھوتوں کے پتالوؤں، رانوں اور گردنوں کا اچھا اچھا گوشت بابا جی کے لیے فریز کر دیا گیا، باقی چاولوں کی دیگوں میں چلا گیا۔

اُس کے بعد ہر آٹھویں دسویں روز کسی نہ کسی بھوت کی نشاندہی ہو جاتی، جو بھیڑ، بکرے، کٹے کے بھیس میں کہیں نہ کہیں پھر رہا ہوتا یا کسی گھر کے کھونٹے سے بندھا ہوتا۔ اب بابا جی نے انسانوں کو بھوتوں سے مکمل نجات دلانے کا مصمم ارادہ کر لیا اور اپنی الہامی طاقت سے اُن کا سُراغ لگانے لگے کہ کہاں کہاں یہ خبیث چھُپے بیٹھے ہیں۔ مرید شک کا اظہار کرتے کہ بابا جی لگتا فلاں گھر میں بھی ایک دو بھوت بندھے ہیں جو بکروں کی شکل میں ہیں اور بابا جی کی کشفی نگاہیں اُسے بھانپ لیتیں۔ بھوت کا مالک اگر اُسے بھوت ماننے سے انکار کرتا تو سینکڑوں مریدوں کی ڈنڈا دلیلیں اُسے قائل کر ہی لیتیں۔

راجہ جنگ کا تھانیدار جو خود بھی بابا فتح سرکار کے معتقدوں میں سے تھا، اس کے منہ کو بھی بھوت کا خون لگ گیا۔ اِس کے علاوہ پبلک کی حفاظت کا بھی مسئلہ درپیش تھا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں راجہ جنگ سے بھوتوں کا صفایا ہونے لگا۔ جب کافی صفائی کے بعد بھوتوں کی کمی ہو گئی یا انسانوں نے اُنہیں چھپانا شروع کر دیا یا بیچ بوچ کر علاقے سے باہر کر دیا تو بابا جی مضطرب نظر آنے لگے۔

اُن کو اتنے اضطراب میں دیکھ کر ایک دن میری عقابی نگاہوں نے بھانپ لیا کہ ہو نہ ہو کہیں مَیں بھی اپنے بھائی کے ساتھ بھوت قرار نہ دے دیا جاؤں۔ آخر بابا جی زیادہ جانتے ہیں کہ انسان کون ہیں اور بھوت کون ہیں، چنانچہ ایک رات اچانک اپنے ہفتے بھر کی مزدوری چھوڑی اور اوکاڑہ نکل لیے۔

آج کل راجہ جنگ میں اُس بھوت خور سرکار کا مقبرہ مرجع خلائق ہے۔ کبھی موقع ملے تو آپ بھی زیارت کو جائیے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی