جب بکرا بابا جی کا کُشتہ کھا گیا

پیر صاحب نے موتی چور کشتہ تیار کیا تھا، مگر جب وہ سارا بکرا کھا گیا تو اس پر کیا گزری؟

(تصویر: پکسا بے)

یہ کافی پُرانی بات ہے۔ بچپن کا زمانہ تھا۔ مَیں اکثر چیچہ وطنی میں بابا چوغطے شاہ کے دربار پر جاتا تھا۔ تب اُن کا پوتا پیر محمد علی قادری نوشاہی گدی نشین تھا۔

پیر صاحب کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے اور پوتے میرے اچھے دوست تھے۔ بابا محمد علی حکمت بھی کرتے تھے۔ اُن کے مرید ہزاروں کی تعداد میں تھے اور ہر سال تین بار عُرس پر آتے۔

اِسی عُرس پر وہ بابا جی سے اپنی تمام بیماریوں کا علاج کراتے، شغل میلہ کرتے اور سو، پچاس روپے کی نیاز کے عوض تین یا چار دن کھاتے پیتے بھی وہیں سے اور دوائی بھی اُنھی پیسوں میں لے جاتے۔

بابا جی کے ہاں ہر مرض کی دوا ہوتی تھی۔ کینسر سے لے کر ڈلیوری تک اور بخار سے لے کر ہیپاٹائٹس سی تک۔ مزے کی بات ہے کہ مَیں نے کوئی مریض مرتے نہیں دیکھا، ہاں بعضے پاگل ہو جاتے تھے۔ بعض مریض ایسے تھے کہ دو، دو مہینے وہیں ٹِکے رہتے، بابا جی کے گھر کا کام کاج کرتے رہتے اور علاج کرواتے رہتے۔

اُن کا بیٹا رحمت علی میرا دوست ہے (یہ بندہ ایک ہیرا ہے، کسی دن تذکرہ کروں گا)۔ ایک دفعہ مَیں خود بابا جی کا مرید ہوا بلکہ اُن کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت بھی کی۔ مگر بجائے اِس کے کہ اپنے رفض اور شیعت سے توبہ کرتا، خود اُن کا بڑا بیٹا میری صُحبت میں شیعہ ہو گیا اور دیگر پر بھی نہایت بُرا اثر پڑا، جسے دیکھتے ہوئے اُنھوں نے جلد مجھے اپنی مریدی سے برخواست کر دیا۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ذکر اُن کی حکمت کا ہو رہا تھا۔ بابا جی کے ہاں دوائیوں کے کُشتے بنائے جاتے تھے۔ ایک دفعہ مَیں وہیں تھا، ایک کونڈے میں مسلسل سُچے موتیوں کا کشتہ بنایا جا رہا تھا۔ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ چھٹانک یا آدھ پاؤ موتی کونڈے میں ڈال کر اُنھیں مسلسل پیسنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر تھوڑا تھوڑا عرق ِ گلاب ڈالتے جانا ہوتا ہے اور پیستے رہنا ہوتا ہے۔ اتنا پیسنا ہوتا ہے کہ آدھ پاؤ سُچے موتیوں کی مقدار تین کلو عرق پی جائیں اور یہ کام آٹھ، دس دن چلتا ہے۔

علی اکبر ناطق کی دوسری کہانیاں نیچے پڑھیے


مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میلے کے دنوں میں جلد ہو جاتا تھا کہ مریدوں کو پیسنے پر لگا دیا جاتا۔ اِس کُشتے میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ الامان۔ بندہ ایک ذرہ بھر خوراک گرم دودھ کے ساتھ لے تو اُڑا اُڑا پھرتا ہے۔ آدھ پاؤ کشتہ دو سو آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔

خیر یہ کشتہ ایک مرید کونڈے میں پیسے جاتا تھا کہ ایک بکرا اِدھر اُدھر منڈلانے لگا۔ یہ بکرا بہت پلا ہوا تھا اور بابا جی کا بہت لاڈلا۔ مختلف برتنوں میں منہ مارنا، تازہ لگے پودوں کی کونپلیں کھانا، ٹکریں مارنا اور گھر کی دیواریں اور چھتیں پھلانگنا اِس کا شیوہ تھا۔

کشتہ قریباً تیار ہو چکا تھا۔ جو آدمی کشتہ پیس رہا تھا وہ اپنے دھیان میں پیسے جاتا تھا کہ یہ بکرا آ موجود ہوا۔ اُس بچارے کو ایک لگا کے ٹکر ماری۔ ادھر مرید تین چار پلٹنیاں کھا گیا، ادھر بکرے نے کونڈے میں منہ ڈال دیا۔

یہاں وہاں سے دیگر مرید بکرے کو پکڑنے کے لیے دوڑے مگر اُس کا منہ کونڈے میں داخل ہو چکا تھا، وہ جتنا اِسے کھینچتے تھے یہ اُسی قدر زور سے کونڈے کی طرف کھنچتا تھا اور جلدی سے موتیوں کے کشتے کو چاٹ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پَل کی پَل میں کونڈا صاف کر دیا۔

بابا جی کہیں مراقبے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جلدی خبر نہ ہو سکی۔ بکرا کُشتہ کھا کر یہ جا وہ جا، دیواروں اور کوٹھوں پر چڑھ گیا۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد بابا جی مراقبے سے اُٹھے تو اُنھیں کُشتے اور بکرے کی حرکت کی خبر ہوئی۔ بابا جی نے کہا ’او تہاڈا بیڑا غرق، جلدی سے بکرا پکڑو، یہ کُشتہ اُسے مار دے گا۔ اِس سے پہلے کہ بکرے کا دل پھٹ جائے،اُسے حلال کر دیا جائے۔‘

لیجیے اب مرید بکرے کے پیچھے دوڑے مگر وہاں کشتہ اپنا کام کر چکا تھا۔ بکرا ایک مکان کی چھت پہ لیٹا بانکیں مار رہا تھا اور درد کی آواز آسمان تک جاتی تھی۔

مریدوں کے پکڑنے سے پہلے ہی بکرے کا دل واقعی پھٹ چکا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک مرید نے عین آخری لمحوں میں اُس کے گلے پر چُھری پھیر دی اور اُسی شام کے لنگر میں وہ بکرا اپنے کُشتے سمیت مریدوں کے پیٹ میں چلا گیا۔

تو میرے بھائیو، ہر شے اتنی ہی کھانی چاہیے جتنی ہضم ہو جائے ورنہ بابا جی کو اُس سے جتنا بھی پیار ہو گا، اُسے چھُری پھیرنا پڑے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی