برطانیہ میں شادی کرنا عذاب بن گیا

جدید تحقیق میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق مہمانوں کی فہرست تیار کرنے، شادی کا مقام طے کرنے اور کھانوں کی اقسام کا فیصلہ کرنے میں دولہا اور دلہن کے کام کا بہت زیادہ حرج ہوتا ہے

1966 کے ایک ٹیلویژن پروگرام 'آوچ' میں سے ایک منظر

برطانویوں کی اکثریت شادی کی تیاری کو تکلیف دہ کام سمجھتی ہے۔

جدید تحقیق میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق مہمانوں کی فہرست تیار کرنے، شادی کا مقام طے کرنے اور کھانوں کی اقسام کا فیصلہ کرنے میں دولہا اور دلہن کے کام کا بہت زیادہ حرج ہوتا ہے۔ انہیں اپنی نوکریوں میں سے بہت سا وقت اس کی تیاری کے ذہنی دباؤ میں صرف کرنا پڑتا ہے۔

دو ہزار برطانوی شادی شدہ جوڑوں کی مدد سے کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مہمانوں کے لیے سیٹنگ ارینجمنٹ، فوٹوگرافی اور شادی کے پنڈال کو سجانے کی تیاریاں ایسے کام ہیں جنہیں لوگ بہت تکلیف دہ اور ذہنی دباؤ سے بھرپور قرار دیتے ہیں۔

اس سروے میں یہ بھی جانی گئی کہ برطانوی دلہنوں کو اپنی شادی کا لباس حتمی طور پہ چننے سے پہلے کئی جوڑے بدل کر دیکھنے پڑتے ہیں۔

سروے میں شامل 83 فیصد لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ برے طریقے سے اپنی شادی کی منصوبہ بندی میں پھنسے رہے جبکہ باقی 17 فیصد نے کہا کہ وہ اطمینان سے اپنے کاموں میں مصروف رہے اور کسی دوسرے نے ان کی جگہ یہ کام کیا۔

دولہا اور دولہن کے علاوہ اگلا اہم کردار اس ساری کارروائی میں دولہوں اور دلہنوں کی والدہ کا دیکھا گیا۔

تحقیق میں ایک دلچسپ چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ برطانوی معاشرے میں جہاں دلہنوں نے اپنے لباس، مہمانوں کی سیٹنگ ارینجمنٹ اور پنڈال کی سجاوٹ کے معاملات دیکھے وہیں دولہا عام طور پر شادی کا مقام طے کرنے اور کھانے کے انتظامات وغیرہ جیسے مسائل سے نمٹتے دیکھے گئے۔

'شادی کی منصوبہ بندی بہت بڑا چیلنج ہے اور اس بڑے دن سے ہماری امیدیں بہت زیادہ وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہ کوئی خاص انوکھی بات نہیں کہ برطانوی لوگ اس دن ہر چیز کو بہترین دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

شارلیٹ ہل مرکیور ہوٹل کی ڈائریکٹر آف رومانس ہیں اور انہی نے اس تحقیق کا ڈول ڈالا تھا، ان کا مزید کہنا تھا کہ شادی کے دباؤ میں سب سے اہم حصہ شادی کے مقام کا انتخاب، صحیح کپڑوں کا چناؤ اور کھانے کے انتخاب کا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ وقت بھی انہی کاموں میں ضائع ہوتا ہے۔

رائے شماری کے دوران اس چیز سے متعلق دلچسپ معلومات بھی سامنے آئیں کہ لوگ شادی کا فیصلہ کرنے کے کتنے عرصے بعد تک اس کے لیے خالی پلاننگ ہی کرتے رہتے ہیں۔ یہ عمل ایک ماہ سے لے کر چھ ماہ کی طویل مدت تک پھیلا ہوا دیکھا گیا۔ 

86 فیصد لوگوں کے خیال میں ان کی شادی کا دن بالکل ویسا ہی تھا جیسا انہوں نے پلان کیا تھا۔

دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی شادی کے انتظامات سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔

ان لوگوں میں ہر دس میں سے تین لوگوں نے یہ رائے دی کہ اگر انہیں دوبارہ موقع ملے تو وہ اپنی شادی مختلف طریقے سے کرنے کی کوشش کریں گے۔

46 فیصد لوگ ایسے بھی دیکھے گئے جنہوں نے شادی کے موقعے پر ہونے والے انتظامات کے دوران کسی چھوٹے سے مسئلے پر اپنے پارٹنر سے لڑائی بھی کر لی تھی۔

ہر چار میں سے ایک فرد ایسا پایا گیا جس نے اپنی ساس سے ایسے کسی انتظامی معاملے میں اختلاف کیا تھا۔

25 فیصد لوگ ایسے تھے جنہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی شادی کے دن چند فیصلے ایسے بھی کیے جو صرف ان کے والدین اور ان کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے تھے۔

 ان لوگوں نے کہا ہم نے بعض قدیم خاندانی روایات کا احترام بھی محض اس لیے کیا تاکہ بڑے ہم سے خوش رہیں۔

اس تحقیق کے دوران ایک اور چونکا دینے والی بات یہ سامنے آئی کہ ہر دس میں سے تین جوڑوں نے ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کے لیے کسی خاص دن کا انتظار بھی کیا تھا۔ اہم دنوں کی اس فہرست میں ایک دوسرے کی سال گرہیں پہلے نمبر پر تھیں، ویلنٹائن ڈے اس کے بعد آتا تھا اور نئے سال کی شام تیسرے نمبر پر تھی۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عام طور پر برطانوی لوگوں نے شادی کے انتظامات میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی ہونے والی شادیوں کو مدنظر رکھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ویسے ہی انتظامات وہ اپنی شادی میں بھی دہرائیں۔ اس کے علاوہ سجاوٹ کے لیے مختلف تفصیلات سوشل میڈیا پر موجود مختلف تصاویر سے بھی حاصل کی گئیں۔

مس ہل کے مطابق شادیاں ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب خاندان کے تمام افراد صرف اس تقریب کے احترام میں اکٹھے ہوتے ہیں۔

یہ صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب خاندان کے قریبی افراد یا دوست شادی کی ہر چھوٹی چھوٹی تفصیل میں اپنی ٹانگ اڑانا بند کریں اور جس جوڑے کی شادی ہونے جا رہی ہے وہ آزادانہ طور پر اپنے معاملات کا فیصلہ کر سکے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین