ٹکے کی عورت اور روپے والی عورت 

میں کتنی ہی ایسی لڑکیوں سے روز ملتی ہوں جو بحیثیت استاد تب تک نوکری کر رہی ہیں جب تک ان پر کسی شہزادے کی نظر التفات نہ پڑ جائے۔ 

عورت کو بااختیار بنانے کے لیے اس کی معاشی حالت مضبوط کرنا بے حد ضروری ہے۔ (سوشل میڈیا)

’مس بنگلہ دیش شیریں اختر شہلا پہلی مسلم ایشیائی خاتون ہیں جو عالمی مقابلہ حسن میں شرکت کرنے جا رہی ہیں،‘ یہ خبر سن کر میں مسکرا کر رہ گئی کہ جن کو ہمارے بزرگوں نے ’اوئے کالے ٹھگنے بنگالی‘ کہہ کر اپنانے سے انکار کر دیا تھا، اپنے اسی کالے رنگ کے ساتھ اس دھرتی کی بیٹی مقابلہ حسن میں شریک ہونے جا رہی ہے، جب کہ ہماری چٹی چمڑی والی رابی ایک حادثے کا شکار ہو کر میڈیا سے کنارہ کش ہو چکی ہے۔ 

صرف یہی نہیں یہ ٹکے کی عورت روپے والی عورت سے ہر لحاظ سے بہتر نکلی۔ 

شرح خواندگی کو ہی لے لیجیے، موجودہ اکنامک سروے کے مطابق ہمارے ملک کی شرح خواندگی 62 فیصد ہے، خواتین میں یہ تناسب 49 فیصد جب کہ مردوں میں 70 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 73 فیصد ہے، جب کہ 70 فیصد خواتین پڑھی لکھی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواتین کا ملکی معشیت میں کردار دیکھیں تو ورلڈ اکانومک فارم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 کے مطابق 129 ممالک میں سے پاکستان دوسری بدترین پوزیشن پر ہے یعنی 128 نمبر پر، اُس کے برعکس بنگالی قوم 48ویں نمبر پر براجمان ہے۔

بنگالی معیشت میں عورت کا ایک مضبوط کردار ہے، زراعت کے علاوہ صنعت اور جنرل سروسز میں بھی خواتین کی نمایاں اکثریت ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق خواتین بنگلادیش کی جی ڈی پی میں پینتیس فیصد حصے دار ہیں اسکے برعکس، اکنامک سروے آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ڈومیسٹک لیبر کو بھی ملا کر خواتین کا کل 22 فیصد، ملکی معشیت میں حصہ ہے، آبادی کے تناسب سے یقیناً یہ بہت تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ 

عورت کو بااختیار بنانے کے لیے اس کی معاشی حالت مضبوط کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس میں سب سے پہلے معاشرے کا رویہ آتا ہے، ابھی تک ایسی سوچ موجود ہے جہاں بیٹیوں کا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اگر پڑھایا جاتا ہے تو صرف اس نظر سے کہ رشتے اچھے مل جائیں۔ ااس کے بعد مرحلہ آتا ہے نوکری یا کاروبار کرنے کا، مر مر کر عورت کو اجازت مل بھی جائے تو رشتہ طے ہوتے ہی سسرالی فرمائش ہوتی ہے کہ اب گھر بیٹھنا ہو گا تاکہ بچوں کی اچھی پرورش ہو۔ پرورش کرنے والی خالی ذہن لیے مارننگ شوز دیکھتی رہتی ہے یا ڈراموں سے سسرالی لڑائیوں کے گر سیکھ کر تابع آزمائی کرتی رہتی ہے۔

بیس بائیس سال جو سیکھا ہوتا ہے وہ پرت والے پراٹھوں کے بلوں کی نظر ہو جاتا ہے۔ میڈیکل کالجوں میں خواتین کا مخصوص کوٹا ہوتا ہے، چالیس پچاس لاکھ اور زندگی کے چار سال لگا کر لڑکی جب ڈاکٹر بنتی ہے تو ہاؤس جاب کے لیے اس کو سسرال روانہ کر دیا جاتا ہے کہ بیٹا آپ کو بگڑے ہوئے سسرالی مل رہے ہیں ان کا علاج تاحیات کرو۔ 

کتنی ہی ہونہار خواتین کو میں نے یوں معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کیرئیر قربان کرتے دیکھا ہے، میں کتنی ہی ایسی لڑکیوں سے روز ملتی ہوں جو بحیثیت استاد تب تک نوکری کر رہی ہیں جب تک ان پر کسی شہزادے کی نظر التفات نہ پڑ جائے۔ 

اونچے عہدوں پر بھی خواتین چیدہ چیدہ نظر آتی ہیں جو کسی حد تک بہتری آئی ہے معاشرے میں مگر ابھی بہت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاشرتی رویے سے ہٹ کر بنگالی معاشرہ دیکھیں تو وہ بہت روشن خیال ہیں، ہر شخص گانا اور ناچنا جانتا ہے، رابندر ناتھ ٹیگور کی سر زمین حقیقی معنی میں فنون لطیفہ کو سمجھتی اور عورت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ ان جہتوں میں بھی اپنا لوہا منوائے۔ دیہات میں ،شهروں میں، ہر جگہ بنگالی خواتین برابر کے حقوق سمیٹے ملکی معیشت میں اپنا کردار نبھاتے نظر آئیں گی۔ 

پاکستانی عورت کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کے بعد نوکری یا کاروبار کرنا اس کا حق ہے، کام نہ کر کے وہ اُن نوجوانوں کا بھی حق مار رہی ہیں جو میرٹ پر رہ جاتے ہیں اور تعلیمی اخراجات کا ضیاع بھی کر رہی ہیں۔ تہی دست عورت کو کبھی باپ، کبھی بھائی، پھر شوہر اور بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں، اور پھر آخر میں پاپا کی شہزادی کو سننا پڑتا ہے کہ وہ دو ٹکے کی عورت ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ