محبت کو جینے دیں

کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اکثر محبت کے نام پر دھوکے ہی ہوتے ہیں۔ جنہیں پتہ ہو کہ ان کے ابا نے نہیں ماننا یا ان کا استخارہ غلط ہی آنا ہے، وہ ایسے کاموں سے دور رہیں۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں محبت کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اگر دو لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اس رشتے کو دنیا کے سامنے قبول کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا اعتراض ہمارا ہی ہوتا ہے۔  (تصویر: پکسا بے)

آج ہم محبت کا ذکر کریں گے۔ وہی محبت جسے آپ بے حیائی تصور کرتے ہیں۔ یہ بے حیا محبت سڑکوں، سنسان پارکوں اور سینما گھروں میں خوار ہوتی ہے۔ کسی کی محبت وہاں سے سفر کرتے ہوئے گھر تک پہنچ جائے تو یار دوست خوش بعد میں ہوتے ہیں، حیران پہلے ہوتے ہیں۔ ابے گھر والوں کو کیسے منایا؟ ابا نے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی نہیں دی؟ سب ٹھیک چل رہا ہے؟ کیا تم لوگوں کے درمیان اب بھی محبت باقی ہے؟ ڈھیروں سوال۔

جانے کیسے محبت کے بارے میں اتنے شکوک ہمارے دلوں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ارے محبت تو ایک فطری جذبہ ہے۔ انسان کے اختیار میں کہاں ہوتی ہے۔ نہ ہی یہ کوئی بٹن دبانے سے ہوتی ہے اور نہ ہی بٹن دبانے سے ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک لطیف سا احساس ہے جو انسان کی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اب یہ تبدیلی مثبت ہوگی یا منفی، اس کا انحصار ارد گرد کے ماحول پر ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں محبت کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اگر دو لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اس رشتے کو دنیا کے سامنے قبول کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا اعتراض ہمارا ہی ہوتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد ہی دیکھ لیں۔ خاندان میں کوئی رشتہ طے پا رہا ہو تو اسے جوڑنے والوں سے زیادہ توڑنے والے موجود ہوں گے۔ مزے کی بات، یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا اس رشتے سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔ بس اپنی ٹانگ اونچی رکھنی ہے، چاہے کسی کی زندگی کیا سے کیا ہو جائے۔

بھئی ان کی زندگی ہے، وہ گزار رہے ہیں، کسی بھی صحیح یا غلط قدم کا انجام بھی انہوں نے ہی اٹھانا ہے، اپنی زندگی کا جواب بھی انہوں نے خود ہی دینا ہے تو بھئی ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ کیا ہم اپنی انا ایک طرف رکھ کر ان کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتے؟ جیو اور جینے دو کا اصول لاگو کریں۔ خود بھی بریانی کھائیں اور انہیں بھی کھانے دیں۔

کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اکثر محبت کے نام پر دھوکے ہی ہوتے ہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو محبت کرنا سکھائیں اور اس دھوکہ دہی سے بچنا اور نکلنا بھی بتائیں۔ جنہیں پتہ ہو کہ ان کے ابا نے نہیں ماننا یا ان کا استخارہ غلط ہی آنا ہے، وہ ایسے کاموں سے دور رہیں۔ جنہیں اپنا جگر اور ہڈیاں تھوڑی مضبوط لگتی ہیں، وہ محبت کے میدان میں قدم رکھیں اور دوسرے کی عزت سے زیادہ اپنی عزت کو دیکھتے ہوئے ہر قدم اٹھائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی افریقہ کی مثال لے لیں۔ ایک جوڑا کھانا کھانے کے ایف سی جاتا ہے۔ آدمی اپنی سیٹ سے اٹھتا ہے، خاتون کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے اور اسے شادی کے لیے پرپوز کرتا ہے۔ ریستوران کی انتظامیہ اور وہاں موجود دیگر لوگ اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر جوڑے کے قریب آ جاتے ہیں۔ کوئی ہنس رہا ہے، کوئی خوشی سے چیخ رہا ہے، کچھ کے ہاتھ میں موبائل ہے، وہ محبت کے ان لمحوں کو اپنے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ کے ایف سی جنوبی افریقہ اپنے ٹوئٹر سے یہ ویڈیو شیئر کرتا ہے اور لوگوں سے اس جوڑے تک پہنچنے کے لیے مدد مانگتا ہے۔ مقصد۔۔۔۔۔ اس جوڑے کی محبت میں اپنا حصہ ڈالنا اور ان کی شادی کو ان کے لیے آسان بنانا۔

مختلف کمپنیاں اس جوڑے کی شادی کروانے میں اپنی اپنی مدد کا اعلان کر رہی ہیں۔ کچھ بینکوں نے سیونگ بانڈ دینے کا اعلان کیا، کچھ کمپنیوں نے شادی ہال کی پیشکش کی تو کچھ نے سجاوٹ اپنے ذمے کے لی۔ مطلب جوڑے کے پاس باقاعدہ آپشن موجود ہیں۔ جس کا ہال پسند آئے، اس کی پیشکش قبول کرلے اور باقیوں سے معذرت کرلے۔ دو رسالوں نے ان کی محبت کی کہانی کے لیے دو، دو صفحے مختص کرنے کا اعلان کیا اور تو اور کوکا کولا نے بھی شادی کے دن مہمانوں کی تواضع کے لیے مشروب دینے کا وعدہ کر لیا۔ کنڈوم بنانے والی مشہور کمپنی ڈیوریکس نے جوڑے کو مفت کنڈوم بھیجنے کی ٹویٹ کی۔

تحائف کی فہرست لمبی ہے۔ گوگل پر ہیش ٹیگ کے ایف سی پرپوزل لکھیں، مکمل فہرست آپ کے سامنے آ جائے گی۔ ابھی تو مدعا محبت کے جشن کا ہے۔

اس سارے قصے میں نہ کسی کی عزت گئی، نہ کوئی جھگڑا ہوا اور نہ کوئی قتل ہوا۔ جوڑے کے فیصلے کا احترام کیا گیا اور جو راستہ انہوں نے اپنے لیے چنا اسے ہموار بنانے کے لیے جس سے جو کچھ ہو سکتا ہے، اس نے وہ کرنے کا اعلان کیا۔

کیا ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے؟ شاید کہیں ہوتا ہو، لیکن مجموعی طور پر محبت کی حوصلہ شکنی ہی ہوتی ہے۔

آپ اخبار اٹھا لیں۔ اپنی مرضی اور گھر والوں کی رضا کے بغیر شادی کرنے والے جوڑے عدالت کے باہر ہی رلتے نظر آئیں گے۔ اب کس میں اتنی ہمت رہتی ہے کہ اس سب خواری کے بعد بھی محبت پر پہلے کی طرح ہی قائم رہے۔

کیا مستقبل میں ایسا ہونے کی امید ہے؟ ہاں، کیوں نہیں۔ ہم بھی گوشت پوست کے انسان ہیں، سینے میں دل رکھتے ہیں اور سر میں دماغ۔ دیر سے سمجھتے ہیں پر سمجھ ضرور جاتے ہیں۔ پرانی سیکھی ہوئی باتیں بھلانے میں وقت لیں گے اور نئی باتیں سیکھنے میں بھی وقت لگے گا لیکن ہم بھی وہاں پہنچ جائیں گے جہاں آج جنوبی افریقہ ہے۔ پھر ہمارے ہاں بھی محبت رقص کرے گی اور ہم اس رقص کے نشے میں جھومتے چلے جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ