بھارت کا فسانہ سیکولرازم

ہندوستان کے مسلمانوں کو اب طے کرنا ہوگا کہ کیا وہ اکثریت کی شرائط پر بھارت میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں گے یا انہیں اپنی شرائط طے کرنا ہوں گی۔

25 نومبر 2018 کو ہندو قوم پرست گرو ہ کے کارکن ایودھیا میں ایک مذہبی تقریب میں شرکت کے بعد نعرے بلند کر رہے ہیں (روئٹرز)

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہندو مسلمان کے درمیان مذہب کی دیوار سن سنتالیس میں اچانک تعمیر ہوئی وہ حقیقت سے انحراف کی آڑ میں دراصل سچائی سے خوفزدہ ہیں اور دوسروں کو ’فیل گڈ فیکٹر‘ میں رکھ کر سیاست کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔

ایسی حماقتیں زیادہ تر پنڈت نہرو سے منسوب کی جاتی ہیں جنہوں نے سامراجی طاقت کے خلاف تحریک آزادی کے دوران مسلمانوں کو ملک کا اہم ستون قرار دیا تھا جبکہ گاندھی نے عدم تشدد کے سائے تلے ہندوستان کے مسلمانوں کو الگ مملکت بنانے سے روکنے کی ایک مزموم کوشش بھی کی تھی۔

جناح، جو کانگریس کے ہراول دستے میں شمار کیے جاتے ہیں اور بظاہر سیکولرازم کے پاسدار بھی تھے بیشتر ہندوستانیوں کی نبض کو بخوبی اس وقت جانچ گئے تھے جب 1916 میں ایک کانفرنس میں تقریر کے دوران گاندھی نے انہیں ’شریف النفس مسلمان لیڈر‘ کہہ کر پہلی بار انہیں مسلمان ہونے کا احساس دلایا تھا۔ ہندوؤں کی قربت سے جناح اتنے مانوس تھے کہ دونوں کے بیچ پائے جانے والے نفاق کو پہچان نہ سکے لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا جب وہ بارہا یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا مسلمانوں کو متحد ہندوستان کا ساتھ دینا چاہیے یا الگ اپنی مملکت کا تقاضا کرنا چاہیے۔

تاریخ کے حوالے سے یہ بات زبان زد عام ہوگئی کہ جب نہرو نے انہیں متحد ہندوستان میں رہنے پر زور ڈالا تو جناح نے کہا ’متحد ہندوستان میں صرف ہندوؤں کے مفادات محفوظ ہوں گے، مسلمانوں کے نہیں۔گاندھی کے بعد مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت کون دے سکتا ہے۔‘

بعض مورخین لکھتے ہیں کہ جناح کو چند واقعات نے جھنجھوڑ ڈالا اور الگ اسلامی مملکت بنانے کی تحریک بھی دی۔ ایک جب بعض ہندوؤں نے گاوکشی پر روک لگانے کی بڑی مہم شروع کر دی جو بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھی۔ دوسرا جب ہندو کٹر پرستوں نے بابری مسجد کو متنازعہ قرار دیا اور تیسرا واقعہ ایسا تھا کہ جس کا درد جناح نے شدت سے محسوس کیا۔ ایک مرتبہ وہ ہندو مہاسبھا کے قائد کے گھر پر ان سے ملنے کے لیے گئے۔ انہیں اس وقت اندر جانے سے روک لیا گیا جب وہ رہنما کھانا کھا رہے تھے۔ اس کی وجہ مسلمان کے قریب آنے سے انہیں کھانے کے بھرشٹ یا ناپاک ہونے کا اندیشہ تھا لہذا انہوں نے اپنے گھریلو ملازم سے جناح کو روکنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ بات جناح کے دل کو بری طرح چبھ گئی اور ہندوؤں کے ساتھ دیرینہ میل ملاپ میں پہلی بار موٹی دراڑ پڑگی۔

سن سنتالیس میں سیکولرازم کے چکر ویو میں جکڑ کر مسلمانوں کو دو حصوں میں بانٹنے کا کھیل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد نے مل کر کھیلا حالانکہ خود آزاد کو ہندو کٹر پرستی کا اس وقت خوب تجربہ ہوا تھا جب کانگریس کے اجلاسوں میں بعض رہنما ہندو اکثریت کی بالادستی کی حمایت کر کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دینے کی مہم پر گامزن تھے۔ کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت میں آزاد کو اس وقت سخت دل آزاری ہوئی جب نہرو کے سرکاری سرکولرز آزاد سے پوشیدہ محکمہ تعلیم کے افسروں کو براہ راست بھیجے جاتے تھے جن میں مسلمانوں کے بارے میں پالیسیاں مرتب کرنا مقصود ہوتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابری مسجد کو توڑنے اور ہتھیانے کا عمل آزادی کی تحریک سے بہت پہلے شروع ہوا تھا جس کی باضابطہ بنیاد آزادی کے فورا بعد دسمبر 1949 میں ڈالی گئی جب بھگوان رام کی مورتی کو رات کے اندھیرے میں بابری مسجد کے عقب میں نصب کیا گیا۔ چونکہ بھارت کو آزاد ہوئے ابھی دو برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے اور مسلمانوں کو دو ملکوں میں تقسیم اور فرقہ پرستی کا شدید زخم لگا تھا تو حکومت وقت نے چند افراد کو گرفتار کر کے متنازعہ مقام کو مقفل کر دیا۔ اس کے فورا بعد بعض ہندو مندر کو کھولنے کا معاملہ عدالت لے گئے جس کا اختتام حال ہی میں سپریم کورٹ نے کیا۔

انیس سو بانوے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہندو کار سیوکوں نے ایودھیا میں جمع ہو کر بابری مسجد کو توڑا۔ انہدام کے اس عمل کے ساتھ مسلمانوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ بھارت میں سیکولرازم کا دور ختم ہونے کو ہے جس کے پیش کاروں میں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سرفہرست تھے۔ کانگریس دلی کے تخت پر براجمان بی جے پی کی چپکے سے پیٹھ تھپ تھپا رہی تھی۔

بیشتر ہندوؤں کا کوئی قصور نہیں۔ وہ ہندوستان کو روز اول سے ہندو راشٹر بنانے کے خواہش مند ہیں اگر کوئی خطاوار ہے تو وہ مسلمان قیادت ہے جو حسب عادت گروپوں میں منقسم تھی دوسرا سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر ہندو حکمرانوں کے تلوے چاٹ رہی تھی۔

شیخ عبداللہ نے 1947 میں کشمیریوں کو بھی مذہبی رواداری یا سیکولرازم کا درس دے کر ہندوستان کی جھولی میں ڈالا مگر وقت کی تلوار نے نہ صرف ان کے اہل خانہ پر پیچھے سے وار کیا بلکہ جموں و کشمیر کے عوام کو ایسی ذلت میں پھنسایا کہ وہ اب تک کسی منزل کا تعین نہیں کر پائی ہیں۔

میں نے ہندو کٹر پرستی کا چہرہ پہلی بار پہاڑ گنج دلی کے ریلوے پلیٹ فارم پر دیکھا جب بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ میں دو سال کے بیٹے کے ساتھ ریلوے سٹیشن کے گودام میں گھس گئی جب بلوائی ترشول لے کر مسلمان مردوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ ستم یہ کہ بیشتر مسلمان آج بھی سیکولر روایات کا دم بھرتے ہیں جن کے پیروں تلے ان کی زمین بھی کھسک گئی ہے۔ ان میں عمران خان بھی شامل ہوگئے ہیں جو سیکولرازم کا چہرہ بن کر مندروں کو کھولتے جا رہے ہیں۔

مودی کو مورد الزام کیا ٹھہرانا کہ وہ بھارت کو سیکولر سے ہٹا کر ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل ہندوستان کے ہندو عوام ہندو دیش بنانا چاہتے ہیں جنہوں نے مودی اور ان کی پارٹی کو اس کے لیے اکثریت سے جتایا۔

ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات کا شدید احساس ہوگیا ہے کہ یہ وہ ملک نہیں رہا جو 1857 سے پہلے کا تھا اور جس میں وہ ملک کے ہر فیصلے میں شامل رہا کرتے تھے البتہ وہ اب بھی حالات بدلنے کی آس میں ہیں۔

ہندوؤں نے اپنے نظریاتی مستقبل کا تعین سن 1947 میں واضح کیا تھا مگر نہ جانے مسلمان کس خواب غفلت میں رہے کہ وہ سیکولرازم کی رٹ میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگاتے رہے جو اب انتہائی تشویش ناک موڑ پر آگے ہیں۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو اب طے کرنا ہوگا کہ کیا وہ اکثریت کی شرائط پر بھارت میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں گے یا انہیں اپنی شرائط طے کرنا ہوں گی اور وہی وقار اور حقوق حاصل کرنا ہوں گے جن کو سیکولرازم کے بھوت نے کئی دہائیوں سے دبوچ لیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ