کشمیر ہائی کورٹ نے اپنے چیف جسٹس کو عہدے سے ہٹا دیا

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے چیف جسٹس ایم تبسم آفتاب علوی کی تقرری کو غیر آئینی قرار دے کر بنیادی تقرری کالعدم قرار دی، عہدہ، مراعات واپس ہوں گی جب کہ ان کے فیصلے برقرار رہیں گے۔

جسٹس ایم تبسم آفتاب علوی  (فائل تصویر)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے جمعے کے روز اپنے ایک فیصلے میں اپنے ہی چیف جسٹس، جسٹس ایم تبسم آفتاب علوی کی بنیادی تقرری کو غیر آئینی قرار دے کر انہیں عہدے سے فارغ کر دیا۔

اس سے قبل چیف جسٹس ہائی کورٹ کی بطور جج تقرری کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، جس پر عدالت عظمیٰ نے معاملہ ہائی کورٹ کو ریفر کردیا۔

جسٹس شیراز کیانی اور جسٹس راجہ صداقت پر مشتمل ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جسٹس ایم علوی کی تقرری کے خلاف دائر پٹیشن پر سماعت کی۔

جسٹس شیراز کیانی نے جسٹس علوی کی تقرری کو درست قرار دیا جب کہ جسٹس راجہ صداقت حسین نے اس سے اختلاف کیا، جس پر یہ معاملہ ریفری جج جسٹس اظہر سلیم بابر کے سپرد ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعے کے روز جسٹس اظہر سلیم بابر نے اس کیس کا مختصر فیصلہ سنایا جس میں انہوں نے جسٹس راجہ صداقت حسین کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے جسٹس ایم علوی کی بنیادی تقرری کو غیر قانونی قراردے کر انہیں عہدے سے برطرف کر دیا۔

جسٹس ایم علوی کی تقرری کو چیلنج کرنے والے وسیم یونس ایڈوکیٹ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2012 میں ان کی تقرری کے دوران آئینی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی تقرری روز اول سے ہی متنازع رہی۔

ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار کیا ہے؟

’آزاد جموں کشمیر عبوری ایکٹ 1974‘ میں وضع کردہ ججوں کے تقرر کے طریقہ کار کے مطابق ہائی کورٹ کے جج کے تقرر میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سفارشات کی بنیاد پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر، وزیراعظم پاکستان کو سفارشات ارسال کرتے ہیں اور وزیراعظم پاکستان کو بحیثیت چیئرمین ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ ججز کے تقرر کی حتمی منظوری کا اختیار حاصل ہے۔

آئینی طریقہ کار کیسے بائی پاس ہوا؟

پٹیشنر وسیم یونس ایڈوکیٹ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2012 میں جسٹس ایم علوی کی تعیناتی کے دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر نے وزیراعظم پاکستان کو سفارشات بھیجتے ہوئے اُس وقت کے چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس غلام مصطفیٰ مغل سے ان کی رائے نہیں لی، بلکہ تعیناتی کے بعد جسٹس مصطفیٰ مغل نے جسٹس ایم علوی سے حلف لیتے وقت ان کے پروانے پر ایک نوٹ لکھتے ہوئے ان کی تقرری پر عدم اعتراض کا اظہار کیا۔

وسیم یونس ایڈوکیٹ کہتے ہیں: ’آئینی طور پر ہائی کورٹ کے جج کے تقرر سے پہلے چیف جسٹس سے رائے لینا اور ان کی سفارشات کو شامل کرنا ضروری ہے۔ تعیناتی کے بعد کی توثیق ان سفارشات کا متبادل نہیں ہو سکتی اس لیے یہ سارے کا سارا عمل آئین میں درج طریقہ کار کے خلاف اور ماورائے آئین ہے۔‘

وسیم یونس کے بقول جسٹس ایم علوی کی تعیناتی میں آئینی طریقہ کار کو بائی پاس کرنے کی تصدیق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اُس وقت کے صدر راجہ ذوالقرنین خان کے چیف جسٹس غلام مصطفیٰ کے نام ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔

جسٹس ایم علوی کا مستقبل کیا ہو گا؟

ماہر قانون کے ڈی خان ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگرچہ جسٹس ایم علوی کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق موجود ہے اور وہ یقیناً اس حق کو استعمال بھی کریں گے تاہم فی الوقت وہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں اور نہ وہ جج ہیں۔ اس فیصلے کی رو سے انہیں حاصل تمام سرکاری مراعات واپس لے لی گئی ہیں اور وہ اپنے نام کے ساتھ جسٹس بھی نہیں لکھ سکیں گے۔‘

جسٹس علوی کے دور میں ہوئے عدالتی فیصلوں کا کیا مستقبل ہو گا؟

پٹیشنر یونس وسیم کے بقول عدالت نے اپنے فیصلے میں جسٹس ایم علوی کے بطور جج اور چیف جسٹس تمام تر اقدامات اور فیصلوں کو تحفظ دیا ہے اور وہ تمام تر فیصلے برقرار رہیں گے۔ ’اگر ان فیصلوں کو تحفظ نہ دیا جاتا تو ایک آئینی اور قانونی بحران پیدا ہو سکتا تھا۔‘

کیا جسٹس علوی سے حاصل کردہ مراعات واپس لی جائیں گی؟

اس حوالے سے ماہر قانون  کے ڈی خان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ عدالت کے مختصر فیصلے میں اس حوالے سے تشریح موجود نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ وہ آج اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے ہیں اور وہ تنخواہ، پنشن اور دیگر کسی قسم کی سرکاری مراعات حاصل کرنے کے اہل نہیں رہے۔ پٹیشنر وسیم یونس ایڈوکیٹ کے مطابق سات برس کے دوران حاصل کی گئی تنخواہ اور دیگر مراعات کے حوالے سے تشریح عدالت ہی کر سکتی ہے، فی الحال مختصر فیصلے میں اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں۔

جسٹس ایم علوی اپنی قائم کردہ نظیر کا نشانہ بنے

ماہر قانون میر شرافت ایڈوکیٹ کے مطابق جسٹس علوی دو سال قبل تعینات ہونے والے ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کے خلاف دائر رِٹ کی سماعت میں اختیار کردہ اپنے ہی موقف کا نشانہ بنے۔

ان پانچ ججوں کی تعیناتی کے خلاف دائر ایک رِٹ کی سماعت کے دوران جسٹس ایم علوی نے موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان نے ان ججوں کی سفارشات چیئرمین کشمیر کونسل کو بھیجتے وقت ان سے رائے نہیں لی۔

تاہم صدر مسعود خان کے بیانِ حلفی اور عدالت کو فراہم کردہ ٹیلی فون ریکارڈ کے بعد جسٹس ایم علوی کے اس اعتراض کو ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ جسٹس ایم علوی کی تقرری کے خلاف نواز تنولی ایڈوکیٹ نامی ایک وکیل نے ان ہی الزامات کے تحت اسی نوعیت کی ایک پٹیشن 2015 میں بھی دائر کی تھی۔ تاہم اسے پہلے ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے ’بدنیتی پر مبنی‘ قرار دے کر ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

موجودہ پٹیشن کو بھی ایک مرتبہ ہائی کورٹ ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرچکی ہے تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد اس رٹ کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

کیا اس فیصلے کے کوئی سیاسی محرکات ہیں؟

اگرچہ حکومت اس کیس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کرتی ہے تاہم باخبر ذرائع کے مطابق یہ معاملہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان اور جسٹس ایم علوی کے درمیان چپقلش کا نتیجہ  ہے۔

سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آنے والے دنوں میں موجودہ حکومت کا اس فیصلے میں کردار کھل کر سامنے آ جائے گا۔

کیا جسٹس علوی کی تعیناتی میں قانونی تقاضے پورے ہوئے؟ اس پر سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’ہر جج کی تعیناتی میں جان بوجھ کرکہیں نہ کہیں کوئی سقم چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔ جسٹس ایم علوی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔‘

ان کے بقول جسٹس علوی کے حق میں اور خلاف فیصلہ دینے والے سبھی ججز اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس علوی کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق موجود ہے اور وہ یقیناً یہ حق استعمال بھی کریں گے تاہم دیکھنا یہ کہ حکومت کا اس دوران کردار کیا رہے گا۔ ’حکومت اس دوران کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرتی ہے یا مستقل چیف جسٹس تعینات کیا جاتا ہے تو اس معاملے میں حکومت کی نیت اور کردار کا تعین ہوسکے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان