بارسلونا میں تین خواتین کے دم سے رنگ

پاکستانی خواتین کی ترقی میں کردار سے لے کر پاکستانی روایات، تہوار اور ثقافت کو اُجاگر کرنے اور ہسپانوی اداروں میں پہنچنے کا اعزاز حاصل کرنے تک ان کی ہر کاوش اظہر من الشمس ہے۔

ڈاکٹر ارم بتول عمدہ شاعرہ بھی ہیں (تصویر:شفقت رضا)

بارسلونا کے رنگ لکھتے ہوئے ہم اِس نشست میں نزاکت کا دامن پکڑے آپ کو اُس کوچہ میں لیے چلتے ہیں جہاں ڈاکٹر ہما جمشید، فرح اعوان، جوزفین کرسٹینا اور ایک خاتون بستی ہیں، جن کا ہم آخر میں ذکر کریں گے۔

پاکستانی خواتین کی ترقی میں کردار سے لے کر پاکستانی روایات، تہوار اور ثقافت کو اُجاگر کرنے اور ہسپانوی اداروں میں پہنچنے کا اعزاز حاصل کرنے تک ان کی ہر کاوش اظہر من الشمس ہے۔

ڈاکٹر ہما جمشید خصوصاً پاکستانی اور عموماً ایشیائی خواتین کو ہسپانیہ میں قانونی اور تعلیمی مدد دیتی آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ بارسلونا آنے سے پہلے میڈرڈ میں تھیں اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے اڑیں۔ وہ دو بچوں کی ماں ہیں جو اعلیٰ جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔ ڈاکٹر ہُما میڈرڈ سے بارسلونا تشریف لائیں۔

ان کے ایئر ٹریول اور سماجی خدمات کے دفاتر روال  کی ہر دو بلکہ تین اطراف ہیں اور وہ پہلی خاتون پاکستانی نژاد ہسپانوی شہری ہیں جو بارسلونا کی کونسل رہ چُکی ہیں، اُن کی جماعت وہی تھی جو آج بارسلونا میں بلدیاتی حکومت کی سربراہ ہے یعنی گرین پارٹی، مگر حُبِّ تارکین وطن کے دعوؤں کے باوجود وہ ڈاکٹر صاحبہ کے باب میں اسلام علیکم، وعلیکم سلام جتنا ہی ظرف دکھا پائی۔

محترمہ کا تعلق کراچی سے ہے، بیاہی مُلتان میں گئیں اور آباد بارسلونا میں ہوئیں، سو جدت اور تصوف کا مشرقی رنگ مغرب میں ضم کرنے میں کامیاب رہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر ہی سرگرم نہیں، واقعی میں سوشل ایکٹیوسٹ ہیں۔ حکومتی اداروں میں رسائی اور پذیرائی جیسے امراض بدرجہ اُتم لاحق ہیں۔ جان ایلیا کی ’بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی‘ کے برعکس وہ کہتی بھی ہیں اور سناتی بھی ہیں۔ گو عامۃ الناس میں گوشمالی بھی کافی ہوتی ہے مگر محترمہ اپنی دھن کی پکی ہیں۔

پھر فرح اعوان ہیں، سیالکوٹ مرے کالج سے ایم اے اُردو لٹریچر کیا۔ 2006 میں بارسلونا میں آباد ہوئیں۔ ان کا سماجی کام جہیز کی لعنت کے خلاف جدوجہد ہے۔ بچوں کو ہسپانوی یونیورسٹی میں بھیج چُکی ہیں۔ سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور اُن کی خدمات کی وجہ سے 2015 میں پاکستان مسلم لیگ ق نے اُنہیں خواتین چیپٹر کا ہسپانیہ کا صدر بنا کر نیک کام کمایا۔ یہاں ہجرت بنام شوہر سے قبل بینک میں آفیسر تھیں۔ بارسلونا کے مضافاتی شہر سانتا کلوما دے گرامینیت میں مقیم ہیں۔ خوش گفتار ہیں، ادب و سُخن کی باریکیوں کو سمجھتی ہیں، پائے کی مقررہ ہیں اور پاکستانی خواتین میں اپنی سماجیات کی بنیاد پر عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماجیات اور بین المذاہب ہم آہنگی کی پاکستانی نژاد سفیر اور اِنہی خدمات پر گولڈ میڈل حاصل کرنے والی صدر پیامِ امن محترمہ جوزفین کرسٹینا ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور بارسلونا تشریف لانے سے قبل مشہور سماجی تنظیم کاریتاسکے ساتھ مُنسلک تھیں۔ یہ بارسلونا میں پاکستانی خواتین کی نمائندہ خاتون ہیں۔

فرح اعوان اور جوزفین ایک ہی ضلع کی رہائشی ہیں، کلیسا سے لے کر اسلامی مراکز اور سماجی محافل ان کے دَم سے آباد ہیں۔ ہسپانیہ میں ابھی خواتین کا بڑی محافل میں جانا ارتقائی مراحل میں ہے مگر جہاں یہ دونوں موجود ہوں وہاں اچھا خاصا ’خاندانی‘ ماحول بن جاتا ہے۔

اب ہم آپ کو ایک ایسے جہان میں لے کے جا رہے ہیں جہاں علم اور تعلیم، شعر و ادب کے گُل رنگ چمن ہیں۔ جامعہ ہائیڈل برگ جرمنی سے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر ارم بتُول، جن کو اہلِ بارسلونا اکلوتی صنف اور نزاکت کے اعتبار سے شاعرہ جانتے اور مانتے ہیں۔ آپ بارہا اپنا اردو شاعرانہ کلام بمع ترجمہ سٹی کونسل اور حکومتِ کاتالونیہ کی تقاریب میں پیش کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے ہاں تخیل، نسوانیت، روئیوں کی بے حِسی، رواج کا نُور اور اظہار کی بیباکی بے پناہ ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ تدریس سے وابستہ ہیں، اردو اکیڈمی چلاتی ہیں۔ ان کا ایک بیٹا ہے ہاشم اور شوہر نامدار حافظ احمد آج کل آفیشل سکول آف لینگوئج بارسلونا میں معلم ہیں۔ حافظ صاحب کے لہجے کی ملائمت ہے، جسے ہم عرفانہ زبان میں کولاہٹ سے تشبیہ دیتے ہیں جو گاہے مصطفیٰ زیدی کے اشعار شروع کر دیتی ہے اور کہیں احمد ندیم قاسمی کا بھی ٹچ ٹانکہ لگا لیتے ہیں۔  کافی غور و خوض کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیوی شاعرہ ہو تو شوہر کی اظہار کی نزاکتوں سے بدرجہ اُتم آگاہی ضروری ہے۔ حافظ صاحب سے مل کر یہ راز بھی منکشف ہوتا ہے کہ مرد کے لہجے کے اندر لطافت اور نزاکت ’کوٹ کوٹ‘ کر بھرا ہونا صرف من جانب اللہ نہیں ہوتا۔

حصول برکت کے لیے ڈاکٹر ارم بتول کی نظم ’دخترِ آدم‘ سے کچھ بند پیش کرتے ہیں۔ یہ نظم ہسپانوی اور کاتالان زبان میں ترجمہ ہو چکی ہے:

یہ قسمت کے لکھے سنجوگ یا دنیا کی رسمیں ہیں

کہ میں جب روشنی ہوں، رنگ ہوں، جنت کی خوشبو ہوں

تو بہتے وقت کی دوزخ میں کیوں سلگائی جاتی ہوں

کبھی تہذیب رکھ دیتی ہے اک آنچل میرے سر پر

کبھی عریاں کسی پتھر پہ میں کھدوائی جاتی ہوں

یہ قسمت کے لکھے سنجوگ یا دنیا کی رسمیں ہیں

اچانک آنکھ کھل جائے اگر خوابوں کے صحرا میں

تو جُوں کی تُوں کھڑی پیاسی کی پیاسی پائی جاتی ہوں

محبت ہی محبت ہے میرے ہر رُوپ میں پھر بھی

میں سوتیلی کبھی سوتن یہاں کہلائی جاتی ہوں

یہ قسمت کے لکھے سنجوگ یا دنیا کی رسمیں ہیں

ڈاکٹر ارم بتول

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ