میرے کھلونے مت توڑو !!!

اس معاشرے کی گھٹن قاتل اور مجرم پیدا کر رہی ہے اس کا بھی کوئی علاج ڈھونڈنا ہوگا صرف مذمتی بیانات سے حالات نا کبھی بدلے ہیں اور نہ ہی بدلیں گے۔ 

آپ ہی بتائیں وہ انسان کیسے جیتے ہیں جن کے بچپن کی خوبصورتی اور معصومیت کسی ہوس زدہ درندے نے نوچ لی وہ احتجاج نہیں کر سکے (پکسابے)

کھلونوں سے کھیلنے والے خود ہوس کے کھیل میں پامال ہو جاتے ہیں۔ آخر فرشتوں جیسی معصومیت ایسا کیا جرم کرتی ہے کہ اسے روند دیا جائے۔ جنسی زیادتی کے بعد ننھے بچوں کا قتل، ایک بھی واقعہ ہو تو انسانیت لرزا جائے یہاں ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں واقعات سامنے آچکے۔ سینکڑوں قبریں۔۔ کہتے ہیں ننھے کفن سب سے بھاری ہوتے ہیں ہماری دھرتی پر کتنا بوجھ ہے ہم یہ بوجھ کیسے اتاریں گے؟ 

 بچوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کے معاشرے اور ریاست کے سامنے تین بنیادی سوالات ہیں۔ ایک، معصوم بچوں کے بچپن کو کیسے بچایا جائے دوسرا سوال ان ہوس کے مریضوں کے حوالے سے ہے انہیں عام مجرموں کی صف میں کھڑا کر کے پھانسی پر لٹکا دینے سے کیا ان کی بیماری کا علاج بھی ہو جائے گا؟ تیسرا سوال ان افراد کے بارے میں ہے جو بچپن میں جنسی ہوس کا شکار ہوئے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز نہ اٹھا سکے۔

یہ لوگ چپ کی ایک دبیز تہہ میں گم ہو گئے۔ ایسے تمام افراد جن کو بچپن میں جنسی زیادتی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا وہ ساری زندگی اس ڈر سے نکل نہیں سکتے۔ کیا ہمارا معاشرہ ان ڈرے سہمے انسانوں کو نفسیاتی دباؤ سے نکالنے کا اہل ہے۔

تیسرے سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ذیادہ دقّت نہیں ہو گی کیونکہ اس سوال کا جواب ہے بالکل نہیں۔ انسانی رویوں کے ساتھ آسیب کی طرح لپٹے نفسیاتی دباؤ اور الجھنوں کی جڑ تک جانے کا تصور ہمارے معاشرے میں ناپید ہے نا تو یہاں کسی کو شوق ہے نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ذہنی ڈسٹرب بچوں اور افراد کے ابنارمل رویوں کی تہہ میں چھپے زخم دیکھ سکیں۔ اکثریت ماں باپ تین وقت کی روٹی کے گھن چکر میں گھومتے صرف بچوں کو بیماری اور بھوک سے بچانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ 

بچے کی شخصیت کے اندر اچانک در آنے والے بدلاؤ کا احساس اکثر والدین کو ہوتا ہی نہیں ہے اور جن کو ہوتا ہے وہ بھی بچے کے جنسی زیادتی اور جنسی ہوس کے شکار کے امکانات کو سوچتے ہی نہیں۔ والدین کو ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بچپن کو بچا سکیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے آئیں میں آپ کو سکینہ (فرضی نام) کی کہانی سناتی ہوں۔

’میں ایک زندہ لاش ہوں۔۔۔ میں بظاہر زندہ تھی مگر میرے اندر زندگی مر چکی گئی تھی۔ کتنی سنگین بات ہے کہ کوئی زندہ ہو کر بھی جی سکنے سے قاصر ہے لیکن میں یہ سب کسی سے کہہ نہیں سکتی تھی۔ میں بہت روتی تھی بات بات پر ضد کرتی تھی۔ میرا کھیلنے سے دل اچاٹ تھا میں چاہتی تھی کہ میری ماں بس میری طرف دیکھتی رہے اور مجھے اپنے حصار میں رکھے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ ڈراؤنا سایہ میرے سے دور رہے لیکن میری ماں نے اچانک اسی سائے سے کہا کہ مجھے بہلائے اور باہر لے جا کر چپ کر ا دے۔ میں نے نفی میں سر ہلایا میں چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی مگر میرے گلے سے آواز نہیں نکلی۔

وہ میرے والد کے کسی کزن کا بیٹا تھا جو پڑھنے میں ناکارہ تھا تو میرے ابا سے میکینک کا کام سیکھنے ہمارے گھر رہنے لگا۔ اب میں اگر یاد کروں جب مجھے اپنے احساسات کو زبان دینا آگیا ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ شروع سے ہی مجھے عجیب انداز میں لاڈ پیار کرتا تھا۔ میں کبھی بھی اس لاڈ پیار سے خوش نہیں ہوتی تھی مجھے الجھن اور ڈر محسوس ہوتا تھا مگر میرے پاس یہ سب کہنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ میں سات سال کی تھی گھر میں سب مصروف اور یوں ہی لاڈ پیار میں ایک دن صحن کے کونے میں میرا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنے جسم پر پھیرنا چاہا۔ میں چھوٹی سی تھی لیکن اس دن جانے کہاں سے زور آیا میرے اندر کہ میں گرفت سے بھاگ نکلی۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکینہ کی یہ چند قدموں کی دوڑ زندگی سے لمبی تھی۔۔  اس دوڑ میں اس کا بچپن وہیں اس کونے میں روندا پڑا رہ گیا۔ سکینہ کو کہیں بھی کوئی شخص کسی بچے سے لاڈ پیار کرتا نظر آئے تو وہ پھر اسی تکلیف سے گزرتی ہے۔ اسے راہ چلتے ہر مرد پر شک ہوتا ہے وہ کسی کے پاس کسی بچے کو دیکھے وہ بچہ سکینہ کو غیر محفوظ لگتا ہے۔ ایسی دردناک زندگی کا تصور کیجیے۔۔۔ 

 آپ ہی بتائیں وہ انسان کیسے جیتے ہیں جن کے بچپن کی خوبصورتی اور معصومیت کسی ہوس زدہ درندے نے نوچ لی وہ احتجاج نہیں کر سکے۔ بچپن میں ایسی سہمی زبان پر ایسی چپ پڑی کہ پھر کبھی بول ہی نہیں سکے۔ سکینہ بھی بول نہیں سکی وہ چپ ساری زندگی ڈراؤنا خواب بن کے اس کے ساتھ رہی۔ وہ اپنے ننھے ذہن کے ساتھ ہر وقت اس بوجھ میں دبی رہتی کہ میں نے کیسے اس آدمی سے خود کو بچانا ہے۔ اس کی ماں اتنی مصروف تھی دن بھر جانوروں کی طرح کام کرتی اسے تو ہوش نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی طرف دیکھتی۔ سکینہ نے ماں کے قریب رہنے کے لیے تیسری جماعت سے ہی کچن کے کام کرنے شروع کر دیے۔ وہ بڑی ہو گئی تھی وقت سے پہلے لیکن اس کا دل وہی سات سال کی بچی کا دل ہے ڈرا ہوا سہما ہوا۔ ایسی  ہزاروں کہانیاں ہیں جن کو زبان نہیں ملتی۔ ایک چپ سے کسی اور کا بچپن بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔

والدین اپنے بچوں کو بچانے کے لیے کیا کریں؟ 

کیا والدین کام کرنا چھوڑ دیں اور ہر وقت اپنے بچوں کی نگرانی کریں۔ یہاں یہ وضاحت کرنا بھی اہم ہے کہ صرف معاشی حالات کی چکی میں پسنے والے خاندانوں کے بچے جنسی ہوس کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے بھی اپنی لاپرواہی اور مصروفیت کی بنا پر بچوں کے تحفظ میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اپنے بچوں کو غیر معمولی حالات کو بتانے کے لیے تیار کریں۔

ابتدا سے ہی ان کو برے لمس کو سمجھنے کی تربیت دیں لیکن یہ تب ممکن ہے جب والدین کو خود اس کی تربیت ہو۔ سوچ بدلنے کا یہ عمل کہاں سے شروع ہو۔ والدین کو یہ باور کرانا اہم ہے کہ ان کے بچوں کے رویے میں آنے والی اچانک تبدیلیوں کی سنگین وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور ان میں ایک وجہ ان کے ساتھ ہونے والے ایسے واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔

ابھی جو عالم ہے عموماً والدین بچوں سے بات کرنے میں آرام دہ نہیں ہوتے دوسری نگاہ ٹیچرز کی طرف جاتی ہے مگر ان کے پاس نصاب کور کرانے کا دباؤ ہوتا ہے کہ ایسے موضوعات پر بات کرنے کا وقت نہیں رہتا۔ اگرچہ اب کچھ نجی سکولوں میں ان موضوعات پر والدین اور بچوں سے بات کی جاتی ہے مگر اکثریت بچے جو سرکاری سکولوں میں ہیں وہاں یہ ایک شرمندگی کا باعث سمجھا جانے والا موضوع ہے۔ ریاست اپنی یہ ذمہ داری نصاب اور پڑھانے کے طریقے کو بدل کر نبھا سکتی ہے لیکن اگر یہ مسئلہ ریاست کی ترجیحات میں اور ریاست اپنی سوچ میں اس کو شامل کرے۔

ابھی تک معاشرے کی طرح ریاست بھی فائر فائٹنگ کر رہی ہے جب کوئی واقعہ منظرعام پر آتا ہے تو اس کے ردعمل میں ریاست حرکت میں آتی ہے اور چند دن کے شور شرابے کے بعد بات ختم۔ ریاست کے پاس یقیناً طاقت ہے کہ وہ میڈیا کو اور دیگر پلیٹ فورمز کو حرکت میں لائے تاکہ سماجی سوچ میں دور رس حقیقی تبدیلی رونما ہو اور ہم اس عذاب سے اپنے بچوں کو بچا سکیں۔  

اب رہا سوال ان بیماروں کا جن کو درندے کہنا بھی کم نہیں۔۔۔ ان کا کیا علاج ہونا چاہیے۔ قوانین کو سخت کرنا بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنانے والوں کو پھانسی چڑھانا کیا اس بیماری کی وجوہات کو ختم کر دے گا؟ قوانین بنانے والے اور ان پر عملدرآمد کرانے والوں کو اس بات پر غور کرنا ہو گا۔ اس معاشرے کی گھٹن قاتل اور مجرم پیدا کر رہی ہے اس کا بھی کوئی علاج ڈھونڈنا ہوگا صرف مذمتی بیانات سے حالات نا کبھی بدلے ہیں اور نہ ہی بدلیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ