سندھ حکومت کا سٹوڈنٹ یونینزجلد بحال کرنے کا اعلان

چیف منسٹر ہاؤس سندھ کے ترجمان رشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طلبہ یونین پر کوئی آئینی پابندی نہیں تھی۔ ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یونین پر پابندی عائد کی گئی تھی تاکہ آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کو دبایا جا سکے۔

بیرسٹر مرتضی وہاب کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کو غیر سیاسی بنانا بھی آمریت کی حکمرانی ہے جس کے بعد طلبہ آنے والی زندگی میں سیاست سے دور رہتے ہیں جس کی وجہ سے غیر سیاسی عناصر کی قیادت سامنے آ جاتی ہے۔(اے ایف پی)

حالیہ دنوں ملک بھر کی جامعات کے طلبہ کے جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے مختلف شہروں میں کیے گئے یکجہتی مارچ کے بعد سندھ حکومت نے صوبے میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ طلبا تنظیموں کو فعال کرنے کے لیے سندھ حکومت قانون سازی کرے گے۔

وزیراعلی سندھ کے مشیر قانون و ماحولیات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلبا تنظیموں کو فعال کرنے کے لیے سندھ حکومت قانون سازی کر رہی ہے جس کے بعد طلباءتنظیموں کو سندھ بھر میں فعال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

’سٹوڈنٹ یونین پر پابندی دورآمریت کا بدنما داغ تھا جس کے بعد تعلیمی ادارے سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں میں سست روی کا شکار ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت طلبا تنظیموں کے چارٹر اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان یونینز کو ریگولیٹ کرے گی۔اور اس سلسلے میں ہم موثر قانون سازی کریں گے اور طلبا تنظیموں کے مطالبات کی روشنی میں حکومت سندھ ان کی بھرپور معاونت کرے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیرسٹر مرتضی وہاب کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کو غیر سیاسی بنانا بھی آمریت کی حکمرانی ہے جس کے بعد طلبہ آنے والی زندگی میں سیاست سے دور رہتے ہیں جس کی وجہ سے غیر سیاسی عنصر کی قیادت سامنے آ جاتی ہے۔

 ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ یہ فیصلہ سندھ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت جلد طلبہ تنظیموں کے فعال ہونے کا قانون سندھ اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا ۔پیپلز پارٹی کی قیادت طلبہ تنظیموں کے مکمل فعال ہونے کی حمایت کرتی ہے، بالخصوص بلاول بھٹو زرداری طلبہ سیاست کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی طلبہ آگے چل کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ان سرگرمیوں سے ہی سماجی معاملات کو سمجھنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔

چیف منسٹر ہاؤس سندھ کے ترجمان رشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طلبہ یونین پر کوئی آئینی پابندی نہیں تھی۔ ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یونین پر پابندی عائد کی گئی تھی تاکہ آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کو دبایا جاسکے۔

’اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے خودمختار ہیں اور حالیہ دنوں میں طلبہ کے جانب سے سٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے لیے نکالے گئے مارچ کے بعد سندھ حکومت نے فیصلہ کیا کہ طلبہ میں یونین سازی کی سرکاری طور پر اجازت دی جائے اور اسے اسمبلی میں بھی لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

’وزیراعلی سندھ دو تین دنوں میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے سندھ میں طلبہ یونین  کی باضابطہ اجازت دیں گے۔‘

نوجوان طلبہ رہنما زہابیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’طلبہ کی جانب سے کی گئی جدوجہد رنگ لائی ہے اور انھیں یقین ہے کہ اب سندھ حکومت کے ساتھ چاروں صوبوں کی حکومتیں یونین پرپابندی کو ختم کریں گی۔‘

’پاکستان کی سپریم کورٹ بھی 1993 میں سٹوڈنٹ یونین پر پابندی ختم کرنے کے متعلق فیصلہ دے چکی ہے جس کے بعد حکومت کو 100 دن کے اندر اس حوالے سے قنون سازی کا بھی کہا گیا مگر اس پر آج تک عمل نہ ہوسکا۔ آج سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب طلبہ رہنماؤں سے بھی ملے اور انھوں نے یقین دلایا کہ بہت جلد یونین کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا۔ اب ہمیں یقین ہے یونین بحال ہوکر رہے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان