اسلام آباد کی خصوصی عدالت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں 17 دسمبر کو نئی پراسیکیوشن ٹیم کے آخری دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنائے گی۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو اسلام آباد میں سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔
اس سے قبل خصوصی عدالت نے 24 نومبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے، پانچ دسمبر (آج) سنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم وفاقی حکومت نے معروف ماہرِ قانون اکرم شیخ کی سربراہی میں مقدمے کی پراسیکیوشن ٹیم ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حتمی فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی، جس کے بعد اسلام آباد کورٹ نے 27 نومبر کو خصوصی عدالت کو حتمی فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
آج سماعت کے دوران کیس کے لیے علی ضیا باجوہ اور منیر حسین بھٹی پر مشتمل وفاقی حکومت کی مقرر کردہ نئی پراسیکیوشن ٹیم عدالت میں پیش ہوئی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل علی ضیا باجوہ نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں مقدمے کے مطالعے کے لیے وقت درکار ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو مطلع کیا کہ ان کی تقرری محض ایک روز قبل ہوئی ہے اور مقدمے کا ریکارڈ تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
علی ضیا نے بتایا کہ وہ سابق پراسیکیوشن ٹیم کے دلائل پر انحصار نہیں کریں گے لہذا عدالت انہیں دلائل دینے اور اس کی تیاری کے لیے مناسب وقت دے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر جسٹس وقار سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ خصوصی کیس ہے اور خصوصی عدالت ہے اور اس کے اراکین دوسرے شہروں سے اسلام آباد آتے ہیں، پراسیکیوشن کو چاہیے کہ باقی تمام مقدمات کو ایک طرف رکھ کر اس مقدمے کو لڑے۔‘
اس موقعے پر جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ ’ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت نہیں دیا جا سکتا، پراسیکیوشن بتا دے کہ دلائل کب دیے جائیں گے۔‘
جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ’جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ یہ اتنا بڑا کیس ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ پراسیکیوشن کے ہاتھوں میں کھیلیں۔ اس کیس کی تیاری کے لیے چار دن کافی ہیں۔‘
پراسیکیوٹر علی ضیا نے عدالت کو بتایا ’ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے اور وقت زیادہ درکار ہو گا۔‘
جس پر جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت اور وکیل پر کیا دباؤ ہو سکتا ہے، وکیل کا کام عدالت کی معاونت کرنا ہے۔‘
ساتھ ہی پراسیکیوٹر علی ضیا نے عدالت سے کیس کی تیاری کے لیے 15 دن کا وقت مانگا۔
اس موقعے پر جسٹس وقار سیٹھ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر سے پوچھا کہ اگر وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں۔ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ان کی معاونت سے عدالت کو آسانی ہو گی۔
جس پر جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے ’عدالت کو آسانی نہیں چاہیے۔‘
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ’یہ خصوصی عدالت سپریم کورٹ کے تابع ہے اور عدالت عظمیٰ کے حکم کو ہی عزت دے گی۔‘
جسٹس وقار سیٹھ نے سلمان صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن اگلی سماعت پر دلائل دے گی اور آپ ان کے بعد دلائل دے سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 17 دسمبر کو دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا اور اس کا تذکرہ حکم نامے میں بھی کر دیا جائے گا۔
تاہم عدالت کے آرڈر میں صرف مقدمے کی سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کرنے کا ذکر ہے۔