نئے عہدے چیف آف ڈیفنس فورسز کا کردار، ذمہ داری کیا ہو گی؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ کے عہدے کا مقصد بری، بحری اور فضائی افواج کے درمیان رابطوں کو مضبوط بنانا ہے۔

27ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے جس کے بعد اس کے مندرجات منظر عام پر آ چکے ہیں اور ان میں سے ایک چیف آف آرمی سٹاف کو ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ کا اضافی عہدہ دینا بھی شامل ہے لیکن اس نے ایک نئی بحث کو بھی جنم دیا ہے کہ کیا فضائیہ اور بحری افواج چیف آف ڈیفنس فورسز کے ماتحت ہیں یا آزادانہ اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

افواج پاکستان کے ایک قابل اعتماد ذرائع نے، جو ترامیم پر ہونے والی پیش رفت سے واقف ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کا مقصد تینوں مسلح افواج کے درمیان مشترکہ دفاعی رابطوں اور ہم آہنگی کو مؤثر بنانا ہے۔ ’اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاک فضائیہ یا پاک بحریہ کو پاک فوج کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔

’ہر سروس چیف آئین کے آرٹیکل 243 اور اپنے متعلقہ سروس قوانین کے تحت اپنی اپنی فورس کی کمان، انتظامی امور اور آپریشنل ذمہ داریاں انجام دینے کے مکمل آئینی اختیار کے حامل رہیں گے۔‘

حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف کو ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ کا اضافی عہدہ اور ’نیشنل سٹریٹجک کمانڈ‘ کی ایک نئی کمانڈ پوزیشن بنانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کا عہدہ 27 نومبر سے جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ختم کرنے کی تجویز بھی ہے۔

جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ اگرچہ رسمی رہا لیکن چالیس سالوں سے علامتی سربراہ کے طور پر اس نے خدمات انجام دی ہیں، جو فوج، بحریہ اور فضائیہ کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

اصولاً چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کے عہدے پر نیوی، ایئرفورس اور آرمی کے فور سٹار آفیسرز کی باری باری تقرری ہونی چاہیے البتہ آخری مرتبہ ایئرفورس سے ایئر چیف مارشل فیروز خان 1994 میں فائز ہوئے تھے۔ بعد میں مختلف حکومتیں اس عہدے پر بری فوج سے ہی تقرری کرتی رہی ہیں۔

سینیئر صحافی عمر چیمہ نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ ’ایئر فورس اور نیول چیف کو آرمی چیف کے ماتحت کیا جا رہا ہے؟ اگر آپ نے کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ تخلیق کیا ہے تو اسے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کی جگہ پر لے آتے۔‘

اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق یہ واضح نہیں کہ کیا بحریہ اور فضائیہ کے فور سٹار افسر بھی اس عہدے تک پہنچ سکیں گے یا نہیں۔

افواج پاکستان کے اس ذرائع نے بتایا کہ ’یہ ترمیم ان کے اختیارات یا خودمختاری میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں کرتی۔ پاکستان بحریہ، فضائیہ اور بری فوج کی کمان بالترتیب پاکستان نیوی ایکٹ، ایئر فورس ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت محفوظ ہے۔ بحریہ اور فضائیہ کی مکمل نمائندگی نیشنل کمانڈ اتھارٹی، ڈیفنس کمیٹی آف کابینہ اور دیگر سٹریٹجک فورمز میں برقرار رہے گی۔‘

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ نے گفتگو میں کہا کہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز کا کردار یہ ہے کہ وہ سول قیادت کو ایک مربوط فوجی مشورہ فراہم کریں، تینوں افواج کے مشترکہ آپریشنز اور سٹریٹجک منصوبہ بندی میں ہم آہنگی پیدا کریں، بالکل اسی طرز پر جیسے دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ صرف سابقہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی رسمی حیثیت کو ایک زیادہ فعال اور آپریشنل کردار میں تبدیل کرتا ہے۔

’میرا نہیں خیال کہ اس سے کسی بھی سروس کے قانونی کمانڈ ڈھانچے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہان اپنے اپنے دائرہ کار میں بدستور آزادانہ طور پر کام کرتے رہیں گے اور وزیرِاعظم و صدرِ مملکت کو براہِ راست مشورہ دیتے رہیں گے۔‘

نیوی اور فضائیہ چیف کی خود مختاری؟

چیف آف ڈیفنس فورس کے معاملے پر بریگیڈیئر (ر) مسعود احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جہاں تک چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کا تعلق ہے، یہ کسی ایک سروس کو اپنے ماتحت نہیں کرے گا بلکہ مشترکہ دفاعی منصوبہ بندی، ملٹی ڈومین آپریشنز اور سٹریٹیجک فیصلوں میں تمام سروسز کو ایک پیج پر لانے کا کردار ادا کرے گا۔ تینوں افواج اپنے اپنے قوانین کے تحت کام کرتی رہیں گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سی ڈی ایف کی تقرری بھی اسی طرح ہو گی جیسے چیف آف آرمی سٹاف کی ہوتی ہے، وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت کی جانب سے۔ اور چونکہ عملی طور پر یہ عہدہ آرمی چیف کے پاس ہو گا اس لیے وہی چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عامر ریاض اس تاثر سے متفق نہیں تھے کہ ’سی ڈی ایف کے نئے عہدے سے اداروں کا توازن بگڑے گا بلکہ بقول ان کے ’یہ مزید مضبوط ہو گا اور باہمی اتفاق پیدا ہو گا۔‘

چیف آف ڈیفنس فورسز کی الگ تعیناتی؟

پاکستان بحریہ کے ریٹائرڈ افسر کموڈور ارشد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز دونوں عہدے ایک ہی شخص کے پاس ہوں، تو باقی سروسز کے لیے یہ تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ انہیں آرمی کے ماتحت کر دیا گیا ہے لہذا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ 

’چیف آف ڈیفنس سٹاف آرمی سے ہی تعینات ہونا چاہیے لیکن اس عہدے کی الگ سے تعیناتی ہونی چاہیے اور آرمی چیف کے پاس اس کا اضافی عہدہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری ملکی جغرافیائی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ہماری بری فوج ایک ’کانٹینینٹل کمپوننٹ‘ ہے، وہ بنیادی طور پر جنگ اور امن کے دنوں صورتوں میں سب سے زیادہ متحرک رہتا ہے۔

’اس پس منظر میں یہ احساس ہوا کہ تینوں فورسز کے درمیان رابطہ اور کوآرڈینیشن کے لیے لینڈ فورسز سے کسی کمانڈر کا ہونا ضروری ہے جو مجموعی کمانڈ کی سطح پر فیصلے کر سکے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ تینوں سروسز  کے سربراہان کی خودمختاری برقرار رکھی جائے۔

جب پاکستان فضائیہ کے ایک سابق ایئر مارشل سے گفتگو کی تو انہوں نے آرمی چیف کی پاس چیف آف ڈیفنس فورسز  کے اضافی عہدے پر رائے دیتے ہونے نام نہ لکھنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’جدید وارفیئر میں تینوں سروسز مل کر ہی کام کرتی ہیں۔ اس کے لیے مشترکہ میکنزم ضروری ہے۔ ’لیکن موجودہ دور میں فضائیہ کو جنگی حالات میں برتری حاصل ہے ایران اسرائیل کی جنگ ہو یا انڈیا پاکستان کی، فضائی کارروائی اور فضائی برتری کو اول درجہ حاصل ہے۔‘

’فیلڈ مارشل ایک رینک ہے تعیناتی نہیں‘

ترامیم پیش ہونے کے بعد یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ اگر فیلڈ مارشل اگر تاحیات عہدے اور مراعات کو برقرار رکھیں گے تو کیا آرمی چیف کی تعیناتی جو پانچ سالہ مدت ملازمت ہے اس کے بعد نئے آرمی چیف تعینات ہوں گے؟

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس شق کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ ’فیلڈ مارشل کا منصب ایک ٹائٹل ہے تعیناتی نہیں۔ آرمی چیف تعیناتی ہے جس کی مدت ملازمت پانچ سال ہے جس میں حکومت توسیع کرسکے گی۔

’فیلڈ مارشل ہے یا مارشل  آف دی ایئر فورس ہے  یا ایڈمرل آف دی فلیٹ یہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں۔ ان کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قومی ہیروز ہوں گے جن کو یہ ٹائٹل دیا جائے گا۔ یہ ٹائٹل ساری دنیا میں تاحیات ہے۔‘

آرٹیکل 243 کی دیگر ترامیم

 ’کمانڈر، نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ‘ کا ایک نیا عہدہ بنائے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، جس کا تقرر وزیراعظم چیف آف ڈیفنس فورسز یا آرمی چیف کی سفارش پر کریں گے جبکہ چیف آف ڈیفنس فورسز پاکستان فوج سے ہوں گے۔ 

مسودے کے مطابق حکومت افسران کو ’فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ‘ کے عہدے پر ترقی دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ انہیں آرٹیکل 47 کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے، جو صدر کے مواخذے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

’اس کے علاوہ انہیں صدر کی طرح آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جس کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان